منی اور سیاست دونوں ہی بدنام. تحریر: مبشر لقمان
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا خلاصہ یہ ہے کہ سیاست اور جمہوریت وہ ”منّی“ ہے ۔ جو بار بار بدنام ہوتی ہے۔ پھر چاہے الیکشن ہوں ۔ اس کے بعد رزلٹ ہوں ۔ بجٹ ہو ۔ یا پھر کسی بل کو پاس کرنے کا موقع ۔ ہمیشہ اسمبلی سیشن شروع ہوتے ایک نئی طرح کی ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ مزے کی بات ہے کہ اسمبلی چاہے صوبائی ہو یا وفاقی ۔ گالم گلوچ ، مارکٹائی trade mark بن گیا ہے ۔ یعنی ممبران اسمبلی کا زبان اور کردار ایک ہی رہتا ہے ۔ اب تو اتنی بار ایوان مچھلی منڈی بن گیا کہ مچھلی منڈی والوں کو شرم آنا شروع ہوگئی ہے ۔ مگر ہمارے ممبران اسمبلی کا رویہ نہیں بدلا ۔
۔ میرے نزدیک مسلسل ان واقعات سے جمہوریت، پارلیمان، پارلیمانی نظام اور سیاست دان مکمل طور پر ڈس کریڈٹ ہو چکے ہیں ۔ کیونکہ حالیہ دنوں میں قومی اور بلوچستان اسمبلی میں جو کچھ ہوا ہے اُس پر پاکستانی جمہوریت برسوں شرمسار رہے گی۔ ۔ ساتھ ہی جو کچھ ہوا، اُس کا سہرا کسی ایک جماعت کے سر نہیں باندھا جا سکتا۔ سرکاری اور اپوزیشن بنچ برابر کے شریک سمجھے جائیں گے۔ کیونکہ قومی اسمبلی میں تو جو ہوا سو ہوا مگر بلوچستان اسمبلی میں تو یوں لگا جیسے کسی ایکشن فلم کی شوٹنگ چل رہی ہو ۔ وہاں اپوزیشن کا اعلان تھا کہ سرکاری ارکان کو ایوان میں جانے دیں گے نہ بجٹ پیش کرنے دیں گے اس لیے دروازوں کو تالے لگا دیئے ۔ وزیراعلیٰ جام کمال کا راستہ بھی روکا گیا،لیکن پولیس نے بکتر بند گاڑی کے استعمال سے دروازہ توڑ کر راستہ نکالا۔ جوتے بھی چلے ۔ ممبر اسمبلی زخمی بھی ہوئے ۔ یہ اپنی طرز کا انوکھا احتجاج تھا۔اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہماری پارلیمانی روایات کتنے خطرے میں ہیں۔ مگر اپوزیشن کی منہ زوری یقینا یک طرفہ نہیں ہے، حکومت کی منہ زوری اس کا سبب بنتی ہے۔ اگر مخالفوں کو دیوار سے لگانے کا رویہ اپنایا جائے گا، تو پھر ہنگامے ہوں گے،آگ بھڑکے گی اور اس آگ میں بہت کچھ بھسم بھی ہو گا۔
۔ پہلے بھی کئی بارعرض کر چکا ہوں کہ قوم اب ان مہنگی ترین اسمبلیوں اور عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے عوامی نمائندوں کا بوجھ اُٹھاتے اٹھاتے ہلکان ہوچکے ہیں۔ اب تو بے زار بھی دیکھائی دیتے ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ عوام اس طرزِ حکمرانی کے برے اثراتِ سہتے سہتے حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ لگتا ہے نہ حالات بدلیں گے نہ عوام کی حالتِ زار بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ یہ رونا تو اب عوام کا مقدر بن گیا ہے ۔ کیونکہ ہر نیا دور اور آنے والا حکمران کچھ کرے نہ کرے عوام کی ذلت اور دھوکوں میں ضرور اضافہ کر جاتا ہے۔ جس معاشرے میں عوام زندہ درگور اور اچھی خبر کو ہی ترس جائیں وہاں کیسی گورننس اور کہاں کا میرٹ؟
۔ پی ٹی آئی پر بھی تعجب ہے آدھی مدت گزارنے کے باوجود بھی طرزِ حکمرانی کے لیے کبھی ریاست مدینہ کا ماڈل پیش کیا جاتا ہے
تو کبھی چین کا ، کبھی ملائیشیا کا ، تو کبھی یورپ کا جبکہ عوام کہتے ہیں کہ ہمیں نہ کوئی بیرونی ماڈل چاہیے اور نہ ہی کوئی نیا پاکستان ہمیں تو بس پرانا پاکستان لوٹا دیں۔ ہم پرانی ذلتوں اور مشکلات پر ہی گزارہ کر لیں گے۔ ہمیں نئے پاکستان کی وہ ذلتِ نہیں چاہیے جس کا کوئی اختتام ہی نہ ہو۔ ساتھ ہی اپوزیشن کو این آر او ملے گا یا نہیں ملے گا اس کا فیصلہ خدا جانے کس نے کرنا ہے؟ مگر جس نے کرنا ہے وقت آنے پر یہ پتہ چل جائے گا۔
۔ مگر اس تمام شور شرابے میں عوام کے لیے آٹا ، چینی ، گھی ، دالیں اور پیڑول مہنگا ہوچکا ہے ۔ اصل واردات یہ ہے جو عوام کے ساتھ یہ حکومت ڈال چکی ہے ۔ پتہ نہیں اب وہ فلاسفر کہاں ہیں جو اس بجٹ کے عوامی ہونے اور ملک کی تقدیر بدلنے کے دعوے دار تھے ۔ اب ان کو گزشتہ ایک ہفتے میں آٹا کی قیمت 27 روپے بڑھی ہوئی دیکھائی نہیں دیتی۔ اور تو اور پرندوں کو جو ۔۔۔ باجرہ ۔۔۔ بطور دانہ ڈالا جاتا ہے۔ رمضان سے پہلے یہ 65روپے کلو تھا آج 95 روپے ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس برس قربانی کے جانوروں کی قیمت کیا ہو گی۔ مجھے بتائیے ان حالات میں کیسے یقین کیا جائے کہ ملک کی معیشت سنبھل گئی ہے۔ اور یہ دو تین چیزوں کی مثال میں نے ایسے ہی سمجھنے کے لئے دے دی ہے ۔ وگرنہ زندگی کی کوئی ضرورت ایسی نہیں جو عام آدمی کی پہنچ سے باہر نہیں ہے بلکہ اس نے بڑے بڑے عزت داروں کی چینخیں نکوادی ہیں۔
۔ حالت یہ ہوچکی ہے کہ لوگ بچے سکول سے اٹھا رہے ہیں ۔ چند دن پہلے جو تفصیل آئی اس کے مطابق گندم ، چینی ، دودھ ہر چیز پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے ۔ آپ ذرا بازار جا ئیے ہر ضرورت کی چیز کو آگ لگی ہوئی ہے۔ ضرورت کی کوئی چیز ایسی نہیں جو مہنگی نہ ہوئی ہو۔ دراصل معیشت تباہ نہیں ہو رہی ۔ ملک تباہ ہو رہا ہے۔ مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے۔ مہنگائی صرف غربت کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کی ایک پوری نسل کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔
۔ سوال یہ ہے کہ ہم کیسی قوم پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ کیا پناہ گاہوں میں پلنے والے ملک چلا سکیں گے یا ملک چلانا صرف ایک طبقے کا کام رہے گا۔ آج بھی کسی سے پوچھ لیجیے۔ کسی کو حکومت کی کسی بات کا یقین نہیں۔ نہ آنے والے انتخابات سے غرض ہے ۔ صرف پوری قوم عمران خان سے یہ فریاد کرتی دیکھائی دیتی ہے کہ آپ اپوزیشن کو این آر او دیں نہ دیں لیکن ہمیں ضرور این آر او دے دیں۔ ہماری زندگیاں آسان کر دیں۔
۔ انتہائی معذرت کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنوں کو اپنے سیاسی بیانیے پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ یہ بیانیہ پاکستان کے جمہوری اور سیاسی عمل کو نئے خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت نے ابتدا سے ہی سیاست دانوں کو کرپٹ ، چور اور ڈاکو قرار دینے والا بیانیہ اختیار کیا۔ جس کا فائدہ کم الٹا نقصان زیادہ ہوا ہے ۔ کیونکہ اب تک نہ تو نیب نہ ہی حکومت کسی چور ، ڈاکو یا کرپٹ کو سزا دلوا سکی ہے یا کم ازکم ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس حاصل کر پائی ہے ۔ تحریک انصاف کے اس سیاسی بیانیہ کے لئےمیں کوئی اور الفاظ استعمال نہیں کروں گا بلکہ صرف اتنا کہوں گا کہ یہ بیانیہ جمہوری اقدار اور رویوں کے منافی ہے۔ اس بیانیے نے سیاست اور سیاست دانوں کو گالی بنا دیا ہے۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ سیاست اور سیاست دانوں پر عوام کا اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نہ صرف سارے سیاست دان ایک جیسے ہوتے ہیں بلکہ ساری سیاسی جماعتیں بھی ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔
۔ اس وقت پاکستان سیاسی قیادت کے بحران میں ہے اور قومی اسمبلی کے حالیہ واقعات سے اس بحران کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت حکمران جماعت تحریک انصاف مبینہ کرپشن کے بڑے بڑے اسکینڈلز کی وجہ سے بحیثیت سیاسی جماعت اندرونی لڑائیوں کا شکار اور کمزور ہو چکی ہے ۔اس کی حکومت کو اپنے اندرونی مسائل اور ناراض دھڑوں سے ہر وقت خطرہ ہے۔ دوسری جانب حکومت آئندہ عام انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام یکطرفہ طور پر نافذ کرنے پر بضد ہے لیکن اسے الیکشن کمیشن بھی مسترد کر چکا ہے۔ ساتھ ہی وزیر اعظم عمران خان کی اپنی پسند نا پسند قوم پر مسلط کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے اور ظاہر ہے عدلیہ میں بھی یہ معاملات چیلنج ہونگے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان کوئی باہمی ڈائیلاگ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ آئینی اداروں کو بھی معاف نہیں کیا جا رہا۔ الیکشن کمیشن ہو یا سپریم کورٹ یا دیگر ادارے انہیں حکومتی حلقے رگڑا لگانے سے باز نہیں آتے۔ یوں لگتا ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
۔ بدقسمتی سے پاکستان کی صورتحال کوبعض تجزیہ نگار 1991ء میں سابق سوویت یونین کی صورتحال سے پر تشبیہ دے رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر سابق سوویت یونین امریکہ کے مقابلے میں فوج، میزائلوں اور ایٹمی ہتھیاروں سے زیادہ لیس ہونے کے باوجود اپنے اندرونی معاملات کی وجہ سے شکست سے دوچار ہو سکتا ہے تو پاکستان کو کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔ اس لئے اسے اپنے اندرونی حالات ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ عمران خان بظاہر ایک کامیاب جمہوری لیڈرکے طور پر اپنا نام پیدا کرتے ہیں یا پھر سوویت یونین کے آخری صدورگورباچوف ثابت ہوتے ہیں۔








