غلاف کعبہ :مقدس ترین گھر کا مہنگا ترین غلاف کتنے میں تیار ہوتا ہے؟

خانہ کعبہ کی دیواروں اور باب کعبہ (دروازہِ کعبہ) کو جس کپڑے سے ڈھانپا جاتا ہے اسے غلاف کعبہ یا کسوہ (عربی: كسوة الكعبة) کہتے ہیں۔

باغی ٹی وی : غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے کام کرنے والے شاہ عبدالعزیز کمپلیکس کے حکام کا کہنا ہے کہ غلاف کعبہ کی تکمیل کرلی گئی ہے اور اسے عیدالاضحیٰ کے مبارک دن اسے حوالے کیا جائے گا۔

سینکڑوں کلو گرام ریشم، چاندی اور سنہری دھاگوں سے تیار کیا جانے والا خانہ کعبہ کا غلاف کئی دہائیوں سے ہر سال ذوالحجہ کے اسلامی مہینے میں حج کے موقع پر نو ذوالحجہ کو تبدیل کیا جاتا رہا ہےہر سال غلاف کعبہ کی تبدیلی کی تقریب نماز عشا کے بعد قریب پانچ گھنٹے تک جاری رہتی ہے اور اسے پوری دنیا میں لوگ براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔

تاہم 2022 میں اس روایت میں تبدیلی لائی گئی ہے اور سعودی حکام کے مطابق رواں برس غلاف کعبہ کو عید کے ایام کے بجائے نئے اسلامی سال کے آغاز پر یعنی یکم محرم الحرام 1444ھ کو غلاف کعبہ کی زینت بنایا جائے گا –

وزیر اطلاعات کے مشیر اور جنوبی اور مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ مواصلات کے شعبے کے سربراہ فہیم بن حمید الحامد نے مکہ مکرمہ میں واقع غلاف کعبہ کمپلیکس کے ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ شاہی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ اس سال 10 ذی الحج کوخادم حرمین شریفین سے کسوہ کو سدنہ کے حوالے کیا جائے گا جب کہ سدنہ یکم محرم الحرام کو اسے صدارت عامہ برائے امور حرمین شریفین کے حوالے کرےگا-

اس سلسلے میں حرمین شریفین کے امور کے صدر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ شاہی حکم پر نیا غلاف دس ذوالحجہ کو خانہ کعبہ کے منتظمین کے حوالے کیا جائے گا اور اس کی تبدتلی کا عمل یکم محرم الحرم کو سرانجام پائے گا۔

بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ تاریخ کی تبدیلی کی وجہ کیا ہے۔

غلاف کعبہ کی تیاری کی بات کی جائے تو یہ دنیا کا مہنگا ترین غلاف ہے جس کی تیاری پر25 ملین سعودی ریال خرچ آتا ہے۔

شاہ عبدالعزیز کمپلیکس برائے غلاف کعبہ امور کے انڈر سیکرٹری جنرل عبدالحمید المالکی نے میڈیا انٹرویوز کے دوران کمپلیکس میں کعبہ کسوہ فیکٹری کے اندر کسوا صنعت کی تفصیلات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے بتایا کہ غلاف کعبہ کی تیاری آٹھ ماہ میں مکمل ہوتی ہے اور غلاف کعبہ 185 ہنر مندوں کی زہرمگرامہ سال بھر کی محنت سے تیار ہوتا ہے ان تمام کا تعلق سعودی عرب سے ہے اور وہ اپنے شعبے کے ماہر اور اعلیٰ تربیت یافتہ ہیں-

المالکی نے بتایا کہ کعبہ میں تقریباً 700 کلو گرام خالص ریشم، 300 کلو گرام کاٹن، 100 کلوگرام چاندی کا دھاگہ اور 120 کلوگرام چاندی کے تار کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ زمین پرموجود اللہ کے اس عظیم گھر خانہ کعبہ کا سب سے بڑا اور مہنگا لباس ہے۔

غلافِ کعبہ کی تاریخ کیا ہے؟ خانہ کعبہ پر غلاف چڑھانے کا آغاز کب ہوا؟

غلاف کعبہ کی تیاری کا آغاز کب ہوا اس کے متعلق درست معلومات موجود نہیں ہیں تاہم متعدد تاریخی کتب کے مطابق قبل از اسلام دور میں پہلی مرتبہ یمن کے بادشاہ طوبیٰ الحمیری نے کعبے پر غلاف چڑھایا تھا الحمیری نے مکہ سے واپسی پر ایک موٹے کپڑے کو استعمال کرتے ہوئِےغلاف کعبہ تیار کروایاتاریخی کتب میں اس موٹے کپڑے کو ’کشف‘ کا نام دیا گیا ہے انہوں یہ کام اسلام کے دور سے قبل کیا بعدازاں وہ مکہ آئے اوراطاعت کے ساتھ داخل ہوئے۔

بعد ازاں اسی بادشاہ نے ’المعافیریہ‘ کپڑے سے غلاف تیار کروایا معافیریہ یمن کے ایک پرانے شہر کا نام تھا جہاں یہ کپڑا تیار ہوا تھا اس کے بعد انہوں نے الملا استعمال کیا جو ایک نرم اور باریک کپڑا تھا اس کو ربطہ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اسی طرح بعد ازاں غلاف کعبہ کے لیے الوصائل نامی سرخ دھاری دار یمنی کپڑے کا استعما ل کیا گیا۔

طوبیٰ الحمیری کے بعد کے ادوار میں غلافِ کعبہ کے لیے مختلف کپڑے استعمال کیے جن میں چمڑے سے لے کر مصر کا قبطی کپڑا تک شامل تھا۔

ماضی میں مصر سے تحفے کے طور پر ہر سال غلاف کعبہ بھجوایا جاتا تھا۔ اس دور میں جمال عبدالناصر حاکم تھے۔ لیکن 1962 میں جب غلاف کعبہ بندر گاہ پر پہنچا تو کافی دیر ہو گئی تھی۔ اس موقع پر سعودی عرب میں سنہ 1962 میں شاہ سعود نے شاہ فیصل کو غلاف کے لیے کارخانہ لگانے کا حکم دیا جس کو مکمل کیا گیا۔ تب سے اسے مقامی طور پر تیار کیا جارہا ہے اور سلسلہ جاری ہے۔

شاہ عبدالعزیز کے دور میں اس غلاف کی تیاری کے لیے الگ سے ایک محمکہ قائم کیا گیا اور یوں اس مقصد کے لیے کپڑا مکہ میں ہی بننے لگا اور اس کام کے لیے ایک کارخانہ بھی لگایا گیا۔

اس کارخانے میں غلاف کعبہ کی تیاری کے دوران استعمال ہونے والے پانی تک کو پاک کیا جاتا ہے اور غلافِ کعبہ کی تیاری میں استعمال کیے جانے والے ریشم کو اس پاک پانی سے دھویا جاتا ہے اس کارخانے میں غلاف کعبہ کو جس ریشم سے تیار کیا جاتا ہے اس پر سنہری اور چاندی کے تاروں سے قرانی آیات کندہ کی جاتی ہیں غلاف کی تیاری میں استعمال کیا جانے والا ریشم اٹلی جبکہ سنہری اور چاندی کی تاریں جرمنی سے آتی ہیں۔

رئاسة شؤون الحرمين کی سرکاری ویب سائٹ پر اس غلاف کی تیاری سے متعلق معلومات دی گئی ہے جن کے مطابق غلافِ کعبہ کو بنانے کے لیے اٹلی سے لائے جانے والے ریشمی دھاگے اعلی معیار کی گریڈ (A5) کے ہوتے ہیں اور ان کی موٹائی تین ملی میٹر ہوتی ہے جو مضبوطی اور لچک کی ضمانت دیتی ہے۔

ایک ریشم کا دھاگہ متعدد ٹیسٹ پاس کرتا ہے جس میں تھریڈ ٹیسٹ سے لے کر موٹائی، مضبوطی، رنگنے، میچنگ، دھوتے ہوئے رنگ اُترنے اور دھات کی تاروں کے ساتھ استعمال تک کے ٹیسٹ شامل ہیں ریشم کو سیاہ اور سبز رنگوں میں رنگا جاتا ہے اور غلاف کی تیاری کے دوران خصوصی کیمیکلز بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔

غلاف کعبہ کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے شاہ عبد العزیز کمپلیکس میں ایک تجربہ کار ٹیم ان ٹیسٹوں کی نگرانی کرتی ہے اس غلاف کی تیاری پر لاگت کا تخمینہ لگ بھگ دو کروڑ سعودی ریال ہوتا ہے، یعنی تاریخ کا سب سے مہنگا غلاف-

اس غلاف کی تیاری کے عمل کی نگرانی 200 سے زیادہ مینوفیکچررز کرتے ہیں جن میں بہترین قابلیت، تجربہ، سائنسی اور عملی قابلیت رکھنے والوں کو مسجدِ بنوی اور خانہ کعبہ کے امور کے لیے ملازمت پر رکھا گیا ہے-

کپڑے کی تیاری کے حوالے سے کمپلیکس میں جدید جیکوارڈ مشینیں موجود ہیں یہ مشینیں قرآنی آیات کی کڑھائی، آیات اور دعاؤں کے لیے کالا ریشم تیار کرتی ہیں جبکہ سادہ ریشم بھی بناتی ہیں جن پر آیات پرنٹ کی جاتی ہیں اسی طرح چاندی اور سونے کے دھاگوں سے کشیدہ کاری بھی کی جاتی ہے یہ مشینیں غلاف کعبہ کی ریکارڈ وقت میں تیاری کے لیے فی میٹر نو ہزار 986 دھاگے استعمال کرتی ہیں۔

پرنٹنگ کے شعبے میں کام غلاف کعبہ کی پٹی پر آیات کی پرنٹنگ سے شروع ہوتا ہے۔ سادہ ریشم کو سب سے اوپر لگایا جاتا ہے۔ کارکن قرآنی آیات کی پرنٹنگ کے لیے سلک سکرین، سفید اور زرد روشنائی استعال کرتے ہیں کمپلکس کا بیلٹ ڈیپارٹمنٹ سونے اور چاندی سے ہونے والی کشیدہ کاری کے معاملات دیکھتا ہے۔

اس عمل میں سوتی اور دوسرے دھاگوں کو استعمال کر کے کپڑے پر پرنٹنگ کی جاتی ہے۔ اس دوران کارکن مسلسل متحرک رہتے ہیں اور ضروری ٹانکے لگاتے ہیں۔

غلاف کعبہ کی پٹی، جس پر قرآنی آیات لکھی ہوتی ہیں، کے لیے 16 ٹکڑے تیار کیے جاتے ہیں جبکہ مختلف سائز کے چھ ٹکڑے پٹی کے نیچے اور چار مضبوط ٹکڑے کعبہ کے چاروں کونوں کے لیے بنتے ہیں۔ اسی طرح دیگر حصوں میں 12 مشعلیں پٹی کے نیچے، پانچ ٹکڑے حجر اسود کے اوپر اور کعبہ کے دروازے کا پردہ بھی شامل ہے۔

حج کے موقع پر غلاف کعبہ کو تقریباً تین میٹر تک اوپر اٹھا دیا جاتا ہے اور نیچے کی جگہ کو سفید سوتی کپڑے سے ڈھک دیا جاتا ہے تاکہ کسوہ صاف رہے اور پھٹنے سے محفوظ رہ سکے۔

غلاف کعبہ کا رنگ مختلف ادوار میں تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔

پیغمبر اسلام نے غلاف کعبہ کے لیے سفید اور سرخ دھاریوں کا یمنی کپڑا استعمال کیا تھا عباسی دور میں غلاف کعبہ کے لیے ایک بار سرخ اور ایک بار سفید کپڑے کا استعمال کیا گیا، تاہم سلجوقی سلطان نے غلاف کعبہ زرد رنگ کے کمخواب سے بنوایا۔

عباسی خلیفہ الناصر نے پہلے سبز اور پھر سیاہ کمخواب کے ساتھ غلاف کعبہ تبدیل کیا اور یہی سیاہ رنگ آج تک چلا آ رہا ہے ’ قبطی کپڑا مصر سے لایا گیا جو غلاف کعبہ کے لیےاستعمال کیے جانے والے کپڑوں میں سے سب سے اچھی قسم کا تھا۔ اسی طرح یمنی غلاف کعبہ بھی اعلیٰ قسم کا کپڑا تھا جو اپنے دور میں بہت مشہور تھا‘۔

سینٹر آف مکہ ہسٹری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فواز الدہاس نے 2020 میں دیئے گئے انٹرویو میں بتایا تھا کہ غلاف کعبہ کے لیے ایک بار سفید، ایک بار سرخ اور ایک مرتبہ سیاہ رنگ استعمال کیا گیا۔ رنگوں کا انتخاب ہر دور کے مالی وسائل کے لحاظ سے رہا ہے۔

مختلف ادوار میں غلاف کعبہ کے رنگ تبدیل کیے جانے کے حوالے سے فواز الدہاس نے بتایا تھا کہ سفید ایک اجلا رنگ ہے، لیکن یہ دیرپا نہیں ہے۔ حاجیوں کے چھونے کی وجہ سے یہ اکثر میلا، گندا اور پھٹنے لگتا تھا۔ یہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا تھا۔ اس لیے اسے سیاہ اور سفید کمخواب اور شملہ کے ساتھ تبدیل کیا گیا جو عرب خیموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھامالی وسائل کی مناسبت سےغلاف کعبہ کا کپڑا تبدیل ہوتا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ انسانوں کی سمجھ کے مطابق غلاف کعبہ کا ارتقا ہوتا رہا اور اسے سرخ کمخواب اور مصری کپڑے کے ساتھ تبدیل کیا گیا۔ اسی طرح ایک خاص قسم کا چمڑا اور کچھ سخت قسم کے کپڑے بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہوئے خلافت راشدہ، اموی اور عباسی ادوار میں جب بھی کپڑا دستیاب ہوتا غلاف کعبہ وقتا فوقتا تبدیل ہوتا رہا‘۔

عباسی دور کے آخر میں غلاف کعبہ کے لیے سیاہ رنگ کو حتمی طور پرمنتخب کیا گیا جو دیرپا تھا اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے حاجیوں، زائرین اور لوگوں کی طرف سے چھوئے جانے کو برداشت کر سکتا تھا-

Comments are closed.