عراق میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں مقتدیٰ الصدر کی جماعت کو بڑی فتح حاصل ہوئی ہے ابتدائی نتائج کے مطابق سابق وزیراعظم نوری المالکی کی جماعت دوسرے نمبر پرہے۔
باغی ٹی وی : "العربیہ” کے مطابق عراق میں اتوار کو منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں شیعہ مذہبی پیشوا مقتدیٰ الصدر کی جماعت ایک بڑی فاتح کے طور پر سامنےآئی ہے اوراس کی پارلیمان میں نشستوں کی تعداد میں گذشتہ انتخابات کی نسبت اضافہ ہوگیا ہے جبکہ ابتدائی نتائج کے مطابق سابق وزیراعظم نوری المالکی کی قیادت میں جماعت دوسرے نمبر پرہے-
عراق کے مختلف صوبوں سمیت دارالحکومت بغداد سے آنے والے ابتدائی نتائج میں مقتدیٰ الصدر کی جماعت نے 70 سے زیادہ نشستیں جیت لی ہیں انتخابی نتائج کی تصدیق ہونے کی صورت میں وہ اگلی حکومت سازی کے عمل میں کافی اثرانداز ہوسکتے ہیں۔
مقتدیٰ الصدرکے دفتر کے ترجمان نے 73 نشستوں کا دعوی کیا ہے، جبکہ مقامی خبر رساں اداروں نے بھی یہی اعداد و شمار شائع کیے ہیں عراق کے انتخابی کمیشن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ الصدر پہلے نمبر پر ہیں لیکن انھوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ ان کی جماعت نے کتنی نشستیں جیتی ہیں۔
العریبیہ کے مطابق پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 2019 میں عراق میں بے روزگاری ، مہنگائی اور حکمرانوں کی مالی بدعنوانیوں کے خلاف احتجاجی تحریک سے ابھرنے والے اصلاحات کے حامی امیدواروں نے 329 رکنی پارلیمنٹ میں کئی نشستیں حاصل کرلی ہیں۔
مگرایران کی حمایت یافتہ جماعتوں کو انتخابات میں دھچکا لگا ہے اورانھوں نے 2018 میں منعقدہ گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں کم نشستیں حاصل کی ہیں مقتدیٰ الصدر کی جماعت نے 2018 انتخابات میں 54 نشستیں جیتی تھیں اور حکومتوں کی تشکیل میں ان کا کردار اہم رہا تھا۔
واضح رہے کہ ایران کی حمایت یافتہ شیعہ جماعتوں سے وابستہ مسلح ملیشیاؤں پر مظاہرین کی ہلاکتوں کے الزامات عاید کیے گئے تھے۔ان ملک گیرمظاہروں میں کم سےکم 600 افراد شیعہ ملیشیا گروپوں کی تشددآمیز کارروائیوں میں ہلاک ہوگئے تھے۔
یہ جماعت عراق میں تمام غیرملکی مداخلت کی مخالف کرتی ہے، چاہے وہ امریکا کی طرف سے ہو، جس کے خلاف انھوں نے 2003 کے بعد بغاوت برپا کی تھی۔
وہ عراق میں تمام غیرملکی مداخلت کی مخالف ہیں، خواہ وہ امریکا کی طرف سے ہو، جس کے خلاف انھوں نے 2003 کے بعد بغاوت برپا کی تھی یا ہمسایہ ملک ایران کی طرف سے، جس کی انھوں نے عراق کی سیاست میں مداخلت پر تنقید کی ہے۔
تاہم مقتدیٰ الصدر ایران آتے جاتے رہتے ہیں اورانھوں نے عراق سے تمام امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔اس وقت عراق میں امریکا کے ڈھائی ہزار فوجی داعش کے بچے کھچے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کے لیے موجود ہیں۔
اس سے قبل عراق میں اعلی انتخابی کمیشن نے پیر کے روز اعلان کیا تھا کہ اتوار کے روز ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ووٹروں کا تناسب 41% رہا۔ کمیشن کے مطابق انتخابات میں 9077000 افراد نے ووٹ ڈالا جبکہ مبصرین کی جانب سے توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ اس مرتبہ انتخابات میں عوامی شرکت کا تناسب بہت کم رہے گا۔
انتخابات کے سلسلے میں مختلف صوبوں میں ووٹروں کا تناسب اس طرح رہا :اربیل 46% ، سلیمانیہ 37% ، کرکوک 44% ، صلاح الدین 48% ، انبار 43%. ، بصرہ 40% ، ذی قار 42% ، نجف 41% ، كربلاء 44%، اور بابل اور ديالى 46%.
انتخابی کمیشن کے سربراہ جلیل عدنان نے کل اتوار کے روز بتایا تھا کہ انتخابی نتائج کا اعلان 24 گھنٹوں کے اندر کر دیا جائے گا ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انتخابی عمل میں نظم و ضبط مثالی رہا جو قابل افتخار بات ہے بعض مقامات پر انتخابی خلاف ورزیوں کا ارتکاب ہوا جن کی تفصیلات جلد ہی کمیشن کی ویب سائٹ پر جاری کر دی جائیں گی۔
انتخابات کے سلسلے میں اتوار کے روز صبح 7 بجے سے شام 7 بجے تک ووٹنگ جاری رہی۔ واضح رہے کہ 2003ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب قبل از وقت انتخابات کا اجرا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ عراق میں صدام حسین کے زوال کے بعد پانچ پارلیمانی انتخابات ہو چکے ہیں۔2003ء میں امریکا کی قیادت میں فوجی اتحاد کی عراق پرچڑھائی اور سنی مطلق العنان صدر صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعدشیعہ گروپوں اور جماعتوں کا حکومت اور حکومت سازی کے عمل میں پلڑا بھاری رہا ہے۔البتہ اب امریکی قبضے کے دوران میں بڑے پیمانے پر ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں کمی آچکی ہے اور 2014 میں ملک کے ایک تہائی حصے پر قابض ہونے والے سخت گیر جنگجو گروپ داعش کوعراقی فورسز نے2017 میں شکست سے دوچار کیا تھا۔