میں سوچتا ھوں کہ اس مردہ سماج میں رھنے والے آھنی زنجیروں اور بیڑیوں کو گلے کا ھار بنا کر جینے والے بے سُدھ مردار ھجوم میں انھیں زندگی کا احساس دلانے والا ارتعاش کیوں کر پیدا نہیں ھوتا؟
کیوں اس سماج میں رھنے والوں میں سے احساس ختم ھوتا جا رھا ھے؟
کیوں اس سماج میں بسنے والے اپنے فرائض و ذمہ داری نبھانے کی اخلاقی جرات سے عاری ھوتے جا رھے ھیں؟

میں سوچتا ھوں کہ اس سماج کا فرد اتنا مردہ کیونکر ھو گیا ھے کہ ابھی بمشکل اپنی زندگی کی دس بہاریں دیکھنے والی حوا کی بیٹی کو بے دردی سے اپنی حوس کا نشانہ بناتا ھے اور پھر اپنی ھی بیٹی کے ساتھ سکون سے سو بھی جاتا ھے؟

کبھی کبھی میں سوچتا ھوں کہ سماج کا فرد کس طرح کس کے حکم سے، کس کی اجازت سے زمین پر چلتے اپنی اور اپنے خاندان، بیوی بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے دن رات اپنے وجود کو مٹا دینے والے معصوم انسانوں کے وجود میں بارود اتار دیتا ھے اور ان بد دعاؤں کی فکر سے بھی ازاد ھو جاتا ھے جو ساری زندگی اس کا پیچھا کرتی رھتی ھیں؟

میں سوچتا ھوں اس سماج کا ھر فرد جس کا بدقسمتی سے میں بھی حصہ ھوں ھر وقت کس مصلحت کی آڑ لئے ھمیشہ ھی خاموش ھو جاتا ھے؟ یہ سماج اپنے بنیادی حقوق کیلئے آواز کیوں نھیں بلند کرتا؟ اپنے حق کیلئے بھی خاموش کیوں رھتا ھے؟ وہ کون سی طاقت ھے جس نے اسے اس قدر بے بس کر دیا ھے کہ اپنے ھی بچوں کیلئے بھی آواز نہیں اٹھاتا؟

اس سماج کا فرد کیوں چپ رھتا ھے جب کوئی ظالم اسی سماج سے اٹھتا ھے اور میری معصوم زینب کو حیوانوں کی طرح اسکے معصوم وجود کو بھنبھوڑتا ھے چیر پھاڑ کرتا ھے اور بنا کسی خوف و خطر نئی زینب کی طرف چلا جاتا ھے۔

اس سماج کا فرد کیونکر خاموش تماشائی بن جاتا ھے جب کہیں سے کسی وڈیرے کا بیٹا اپنے پیسے اور اندھا دھند طاقت کے نشے میں کسی ماں کے لال شاہ زیب کے سینے میں صرف اس لئے بندوق کا پورا میگزین اتار دیتا ھے کہ شاہ زیب نے اپنی بہن کی عزت کے تحفظ کی کوشش کی؟

اس سماج کا ھر فرد تب بھی خاموش ھی رھتا ھے جب
کوئی قانون کا رکھوالا کسی ماں کے جگر گوشے کو سب کے سامنے گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیتا ھے اور وجہ بھی نھیں بتاتا

اس سماج میں بسنے والا نابینا فرد تب بھی اپنے منہ میں موجود زبان کو کاٹ لیتا ھے جب کوئی مجید خان اچکزئی نشے میں دُھت بد مست ھاتھی کی طرح سڑک کنارے ٹھہرے سب کی رھنمائی کرتے معصوم وردی والے کو اپنی لمبی لینڈ کروزر کے نیچے کچل ڈالتا ھے اور ببانگ دھل قانون کی رسیاں توڑتا ھوا رہا ھو جاتا ھے۔

اس سماج کا ھر فرد تب بھی منہ پر تالہ اور آنکھوں پر پٹی باندھ لیتا ھے جب کوئی سڑک کنارے مسافروں سے بھری بسوں سے سب کو اتار کر اپنی گولیوں کی زینت بنا کر چپ چاپ چلا جاتا ھے۔

اس سماج کا ھر فرد اب خاموش رھتا ھے جب
کوئی ان جیسا زندہ سانس لیتا انسان دن میں گھر سے اپنے بیوی بچوں کیلئے انکے زندہ رھنے کیلئے روزی روٹی کمانے نکلتا ھے اور شام کو اسے چار کندھوں پر اٹھا کر لایا جاتا ھے

آج جانے کیوں اس بے حس بے درد بے کار سماج کیلئے میری سوچوں نے اتنے سوالات کھڑے کر دئیے کہ شاید ان سوالات کا جواب پاتے پاتے میں بھی کسی دن اس مردہ سماج کی بے حسی کا نشانہ بن جاؤں۔

لیکن اس سب کے باوجود روشنی کی اک مدھم مگر ٹمٹماتی سی کرن مجھے آج بھی نظر آتی ھے کہ شاید کہیں کوئی اس بیڑیوں میں جکڑے بے حس مردہ سماج میں ارتعاش پیدا کر دے۔ شاید کوئی اپنی چلتی رواں رھتی خوبصورت سانسیں روک کر اس سماج میں رھنے والوں بسنے والوں میں زندگی کا احساس پیدا کر دے

اسی لئے تو کہتا ھوں اے اس سماج کے وارثین، خود کو آل کل کا مالک سمجھنے والو اس سماج میں بسنے والوں کو کہانی بنانے سے ڈرو، کہانی مسخ کرنے سے ڈرو
کہانی دیکھنے سے ڈرو کہانی پھیلانے سے ڈرو کیونکہ میرا اللہ سب سے بڑا انصاف کرنے والا ھے۔ اس کی عدالت میں کوئی ڈالرز، کوئی روپیہ، کوئی سونا، کوئی جائیداد، کسی طاقت کا نشہ، کسی اقتدار کی بھوک کچھ کام نہ آئے گی۔

کیونکہ کچھ پتہ نھیں ایسا نہ ھو کہ آج تم سماج میں بسنے والوں کی کہانیاں بنا رھے ھو اور کل کو کوئی اٹھے اور تمھاری کہانی بنا دے اور پھر تم تاریخ کے اوراقوں میں بھی نہ ملو حتیٰ کہ کسی کہانی میں بھی نہ ملو۔۔۔۔۔۔

ٹوئٹر ھینڈل
@KaalaPak

Shares: