شہبازشریف کےکرپشن کیسزکےمتعلق مرتضیٰ علی شاہ کی خبردرست ثابت ہوئی:زبردست رپورٹنگ ہے:مبشرلقمان

لندن :شہبازشریف کے متعلق کرپشن کیسزکے متعلق سید مرتضیٰ علی شاہ کی خبردرست ثابت ہوئی:زبردست رپورٹنگ ہے:اطلاعات کے مطابق سینئرصحافی تجزیہ نگار مبشرلقمان نے سینئرصحافی مرتضیٰ علی شاہ کو زبردست رپورٹنگ پران کو خراج تحسین پیش کیا ہے ہے

سینئر صحافی مبشرلقمان نے مرتضیٰ علی شاہ کے کام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ آپ نے جو حقائق پیش کیے تھے آج ان کی تصدیق ہوگئی ہے اور یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ آپ واقعی ایک تحقیقاتی جرنلزم کے ماہر ہیں

مبشرلقمان نے بھی برطانوی ادارے کی رپورٹ کے متعلق کہاہے کہ میاں شہباز شریف کو NCA نے کسی بھی مجرمانہ سرگرمی یا منی لانڈرنگ سے بری کر دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے دو چیزیں اب واضح ہوچکی ہیں ; ایک یہ کہ شہباز شریف بطور ملزم مجرم نہیں اور دوسرا یہ کہ شہزاد اکبر کو ان کے کرتوتوں اور جھوٹے الزامات کا جوابدہ ہونا چاہیے۔

 

 

یاد رہے کہ سید مرتضیٰ علی شاہ نے گزشتہ سال نومبر میں خبر دی تھی کہ این سی اے نے شہباز شریف اور ان کے بیٹے سلیمان کے خلاف منی لانڈرنگ کی بڑی تحقیقات مجرمانہ طرز عمل، منی لانڈرنگ اور عوامی عہدے کے غلط استعمال کا کوئی ثبوت نہ ملنے پر مزید کارروائی اور اثاثوں کو غیر منجمد کئے بغیر ختم کردی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سرکاری عدالتی کاغذات کے مطابق برطانیہ کی سپر اینٹی کرپشن فورس نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے 19 دسمبر 2019 کو ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کی عدالت کو بتایا تھاکہ اسے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کے بیٹے سلیمان شریف کے خلاف منی لانڈرنگ، فراڈ، بدعنوانی اور عوامی عہدے کے غلط استعمال میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کو ’ثابت یا غلط ثابت‘ کرنے کے لیے ہائی پروفائل تحقیقات شروع کرنے کے لیے اثاثے منجمد کرنے کے احکامات (اے ایف اوز) کی ضرورت تھی۔ انکشافات عدالتی کاغذات میں موجود ہیں جو کہ اب تک منظر عام پر نہیں آئے۔

 

اس کے بعد وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ شہباز شریف تحقیقات کا حصہ نہیں تھے کیونکہ ان کا نام اے ایف اوز کو الگ کرنے والے آرڈر کا حصہ نہیں تھا۔

نئے کاغذات سے واضح طور پر ثابت ہوگیا ہے کہ ساری تفتیش شہباز شریف اور ان کے بیٹے اور ان کے دوست ذوالفقار احمد پر مرکوز تھی جنہوں نے کارٹر رک میں شہباز شریف کے وکلاء کو ادائیگی کی تھی۔

این سی اے نے شہباز شریف کی ملکیت والے دو فلیٹس، ان کے متعلقہ بینک اکاؤنٹ اور سلیمان کے اکاؤنٹس میں تقریباً 700000 پاؤنڈز کی منی ٹریل کی چھان بین کی جسے ایجنسی کے خیال میں شہباز شریف نے پاکستان سے منتقل کیا تھا۔

شہزاد اکبر اور ڈیوڈ روز نے جولائی 2019 میں ڈیلی میل کے مضمون میں اعلان کیا تھا کہ این سی اے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ این سی اے کا کہنا تھا کہ شریفوں کے برطانیہ کے فنڈز پاکستان میں مجرمانہ طرز عمل سے حاصل ہونے کا شبہ ہے۔

این سی اے نے ڈیلی میل کے الزامات، نیب ریفرنس، ایف آئی اے کی ایف آئی آر اور منی لانڈرنگ کے ثبوت کے طور پر اثاثوں کی بازیابی یونٹ (اے آر یو) کی جانب سے دیے گئے دیگر شواہد پر انحصار کیا جبکہ شہباز شریف سے آف شور اکاؤنٹس کے لیے آف شور علاقوں میں بھی تفتیش کی۔

این سی اے نے غلط کام، منی لانڈرنگ یا مجرمانہ طرز عمل کا کوئی ثبوت نہ ملنے پر شہباز اور بیٹے کے خلاف فوجداری تفتیش ختم کردی تھیں ۔ کسی قابل بازیافت اثاثے کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ شہباز شریف کے خلاف این سی اے کی تحقیقات تقریباً دو سال تک جاری رہیں اور مجرمانہ طرز عمل یا دھوکہ دہی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

نومبر 2021 میں تحقیقات کو بند کر دیا گیا جب این سی اے یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ شہباز شریف اور ان کا خاندان کسی بھی قسم کے غلط کام میں ملوث ہے۔ شہباز شریف کو مؤثر طریقے سے کلین چٹ دے دی گئی۔

یہ ثابت کرنے میں ناکام ہونے کے بعد کہ نقد رقم اور اثاثے مجرمانہ منی لانڈرنگ سے حاصل کیے گئے تھے،تقریباً دو سال تک تحقیقات کے بعد این سی اے نے کیس خارج کر دیا اور شریفوں کے تمام اثاثے جاری کر دیئے۔

Comments are closed.