مصورہ شائستہ مفتی کا جنم دن

آغا نیاز مگسی
0
43

دل میں طوفاں سے الجھنے کا سمایا سودا
ڈوب جائے نہ کہیں اپنا ہی گھر پانی میں

شائستہ مفتی

21 ستمبر 1968ء : یوم پیدائش

معروف ادیبہ، شاعرہ اور مصورہ شائستہ مفتی صاحبہ کے اجداد کا تعلق میرٹھ سے تھا۔ بچپن میں ان کے دادا ڈاکٹر مقرب حسین مفتی نے ان کے ادبی ذوق کے آبیاری کی۔ گھر میں ادبی اور علمی ماحول تھا۔ بچپن سے ہی ان کو لکھنے پڑھنے کا شوق رہا۔ پہلی کہانی 11 برس کی عمر میں بچوں کے ایک رسالے میں چھپی تھی۔ بائیوکیمسٹری میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔ شہید حکیم محمد سعید کے ساتھ قریبی تعلق رہا ہے، ان کے قائم کردہ تعلیمی ادراے سے کافی عرصہ وابستہ رہیں۔ ان کی 3 کتابیں چھپ چکی ہیں۔ 2 کتب شاعری کی ہیں: ’ہوا کے ہاتھ‘ اور محبتوں کے شہر میں‘ ’تیسری کتاب‘ ’چاک اور چراغ‘ افسانوں کا مجموعہ ہے۔

غزل
۔۔۔۔۔۔
اجنبی شہر میں الفت کی نظر کو ترسے
شام ڈھل جائے تو رہ گیر بھی گھر کو ترسے

خالی جھولی لیے پھرتا ہے جو ایوانوں میں
میرا شفاف ہنر عرض ہنر کو ترسے

جس جگہ ہم نے جلائے تھے وفاؤں کے دیئے
پھر اسی گاہ پہ دل دار نظر کو ترسے

میری بے خواب نگاہیں ہیں سمندر شب ہے
وقت تھم تھم کے جو گزرے ہے سحر کو ترسے

جانے ہم کس سے مخاطب ہیں بھری محفل میں
بات دل میں جو نہ اترے ہے اثر کو ترسے

کتنے موسم ہیں کہ چپ چاپ گزر جاتے ہیں
تیرے آنے کا دلاسہ ہے خبر کو ترسے

شبنمی راکھ بچھی ہے مرے ارمانوں کی
نقش پا تیرے کسی خاک بسر کو ترسے

غزل
۔۔۔۔۔۔
لکھے ہوئے الفاظ میں تاثیر نہیں ہے
دل پر جو کسی عشق کی تحریر نہیں ہے

اس زیست کے ہر موڑ پہ لڑنی ہے مجھے جنگ
قرطاس و قلم ہیں کوئی شمشیر نہیں ہے

ممکن ہی نہیں تھا تجھے آواز لگاتے
ہے عشق کی روداد پہ تشہیر نہیں ہے

دنیا میں وفا ڈھونڈنے نکلے تھے ندارد
اک بوجھ ہے دل پر مرے شہتیر نہیں ہے

لمحے میں پلٹ دیں گے زمانے کو تمہارے
ہے عہد ہنر جان یہ تسخیر نہیں ہے

پیوست ہیں اس گھر سے بہت آپ کی یادیں
گزرے ہوئے لمحات ہیں زنجیر نہیں ہے

چپ چاپ بہت دیر سے پھرتے ہیں گریزاں
دنیا میں کوئی آپ سا دلگیر نہیں ہے

غزل
۔۔۔۔۔۔
ان سے ملنے کا ارادہ ہے قضا سے پہلے
کیوں نہ دل کھول کے جی لوں میں سزا سے پہلے

اس حوالے سے ہی شاید اسے پہچان سکوں
خود کو پہچان لوں گر اپنے خدا سے پہلے

زرد موسم کی تھی تمثیل مری آنکھوں میں
رنگ کچھ اور بھی گزرے ہیں خلا سے پہلے

وقت معدوم ہے اور دہر کے انداز جدا
کچھ بھی ممکن ہے مقدر میں قضا سے پہلے

تیری محفل کی طرف لوٹ کے جاؤں کیسے
پوچھ تو لوں دل آشفتہ ادا سے پہلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنکھ یوں ڈوب کے ابھری ہے تری یادوں سے
جس طرح کوئی بسایا ہو نگر پانی میں

دستکیں دے رہا ہے دل پہ کوئی
کس کا آیا پیام رہنے دے

تیرے خط جلاتے ہی لکھ رہی ہوں کیا کیا کچھ
حرف کو مٹانے کا دکھ سبھی کو ہوتا ہے

روز و شب کی چکی میں پس کے رہ گئے ورنہ
آ گیا تھا چوکھٹ تک پھر وصال کا موسم

کیسے اس خواب کو ٹوٹا ہوا دیکھے گی سحر
شوق کے دیپ بجھا دوں میں جفا سے پہلے

Leave a reply