منفی سوچ
عاصم مجید، لاہور

انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ ایک منفی جملہ یا بعض اوقات ایک منفی لفظ انسان کے رویے کو بہت حد تک کڑوا کر دیتا ہے۔
انسان اس جملے کی کڑواہٹ اور منفی جملے کو لے کر کئی گھنٹے تک کڑوا ہی رہتا ہے اور اس دوران کئے گئے فیصلے اس کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
مثبت سوچ ،مثبت جملے اور معاشرے میں ہوتے ہوئے مثبت کام دیکھ کر انسانی زندگی پر مثبت اثرات ہوتے ہیں۔
ہمارا میڈیا زیادہ تر منفی واقعات رپورٹ کرتا ہے۔ لہذا منفی سوچ ہی پروان چڑھتی ہے۔
یہ منفی سوچ والے افراد اپنے گھر، دوست اور دفتری اوقات میں اپنے ساتھیوں میں منفی سوچ پھیلاتے نظر آتے ہیں۔ یہ منفی سوچ ہمارے معاشرے کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ الفاظ کی بناوٹ ہمارے رویہ پر بہت حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔ جیسا ہمارے ٹی وی شوز میں موجود اینکر حضرات کے بارے میں ایک چلتا پھرتا دلچسپ تجزیہ ہے۔ یقینا یہ سو فیصد درست نہیں ہو گا. لیکن ہماری منفی سوچ کی عکاس ہے۔

.
بندہ اگر ایک گھنٹہ مسلسل ڈاکٹر شاھد مسعود کو سن لے جو کہ ویسے بھی ناممکن تو اس کو پختہ یقین ھو چلے گا کہ اگلے چار گھنٹے بعد قیامت آنے والی ہے.
.
بندہ آدھا گھنٹہ اگر مسلسل زید حامد کو سن لے (خدا نخواستہ) تو اس کو ایسا محسوس ہونے لگے گا کہ آج رات ہی ہماری فوج دہلی پر پاکستانی پرچم ٹھوک ڈالے گی.
.
بندہ اگر آدھا گھنٹا ارشاد بھٹی کو جھیلنے کی کوشش کر بیٹھے تو اس کو لگے گا کہ بھٹی کی جیب میں گھر کے سودے کی چار پانچ پرچیاں ہر وقت ہوتی ہیں جن کو وہ ٹی وی پہ سبق کی طرح سناتا رہتا ہے۔
۔
بندہ اگر پندرہ منٹ ہی حسن نثار کو سن لے تو اسے یہ محسوس ہونے لگے گا کہ ابھی یہ ٹی وی اسکرین سے نکل کر میرا گریبان پکڑ کر ادھار مانگ لے گا.
.
بندہ اگر ایک گھنٹہ مبشر لقمان کے انکشافات سن لے تو اس کو پختہ یقین ہو جائے گا کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ بھی نون لیگ نے کرایا.
.
بندہ اگر آدھا گھنٹہ منصور علی خان کو سن لے تو اسے تیس منٹ میں لفظ "میرے کپتان” تین ہزار چار سو دس بار سنائی دینے کی وجہ کانوں میں تان، تان، تان کی گونج اگلے دو ہفتے آتی رہے گی۔
۔
بنده صرف پانچ منٹ روف کلاسرا کو سن لے تو ایسے لگتا هے جیسے پوری دنیا جہاں کی کرپشن صرف حکمران پارٹی نے هی کی ھے.
.
بندہ صرف اگر ایک گھنٹہ حامد میر کو سن لے تو ایسے لگتا ھے کہ اس کو بھی ابھی نامعلوم ایجنسیاں اسی طرح لاپتہ کرنے والی ھیں جس طرح باقی مسنگ پرسن کو کیا ھے.
۔
بندہ اگر دس منٹ ارشد شریف کو سن بیٹھے تو اسے لگے گا کہ اٹھارویں ترمیم کو فوری ختم کرنا، کرونا ختم کرنے سے بھی زیادہ ضروری ہے ورنہ پاکستان کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
۔
بندہ اگر اوریا مقبول جان کو چند منٹ سن لے تو اسے لگے گا کہ پاکستان کے لیے سب سے اچھا ہے کہ ملک میں فی الفور سپہ سالار کی قیادت میں اسلامی صدارتی نظام نافذ کر دیا جائے۔
۔
بندہ صرف جاوید چودھری کو دس منٹ (مجھ سے تو اس سے زیادہ سنا نہیں جاتا) سن لے تو اس کو ایسا محسوس ہوگا جیسے ابن رازی، توتن خامن، گوتم بدھ اور خلیل جبران سارے اس کے کلاس فیلو تھے اور یہ ان سب کا مانیٹر تھا۔

بندہ اگر صرف ایک گھنٹہ سوشل میڈیا کو دیکھ لے تو ایسا لگتا ھے کہ پاکستان ایک حنوط شدہ ممی کی مانند ھے اور اللہ نہ کرے کسی بھی وقت یہ ٹوٹ سکتا ھے.

کمال تجزیہ ہے۔
یعنی کہ لکھنے والے نے یہ محسوس کیا ہے کہ تقریبا جتنے بھی اینکر حضرات ٹی وی شو پر بیٹھے ہوئے ہیں وہ پاکستان کا صرف منفی چہرہ سامنے لے کر آتے ہیں۔
شاید ہی کوئی اینکر ایسا ہو جو پاکستان میں مثبت خبریں ، مثبت چہرا ، کئی افراد کا کامیاب کاروبار اور فلاحی کاموں کے متعلق بتاتا ہو۔

ایسے منفی اثرات دینے والے میڈیا سے منفی اثرات رکھنے والے لوگ سامنے آتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں دوست ، احباب اور رشتہ داروں میں مثبت خبریں اور پاکستان کا مثبت چہرہ سامنے لے کر آئیں۔
کیونکہ
مثبت سوچ ہی تعمیری معاشرہ کی اساس ہے۔

Shares: