پاکستان ایک ایسی نظریاتی مملکت ہے جو دو قومی نظریہ کی اساس پر معرض وجود میں آئی ورنہ 14 اگست 1947ء سے پہلے دنیا کے نقشے پر پاکستان نامی کسی ملک کا کوئی وجود نہ تھا۔
دو قومی نظریہ کی بنیاد کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ہے جو مسلم قوم کو دیگر اقوام سے الگ تشخص عطا کرتا ہے۔ حبشہ کے بلال حبشیؓ اور روم کے صہیب رومی کو محمد ﷺ کی قوم میں شامل قرار دیتا ہے۔ محمد ﷺ کے سگے چچا عرب سردار ابولہب کو محمد ﷺ کی قوم سے خارج قرار دیتا ہے کیونکہ وہ کلمہ گو نہیں تھا۔
عربی زبان کا معروف قول ہے تعرف الاشیاء باضدادھا ترجمہ: چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ پس دو قومی نظریہ کو سمجھنے کے لیے متحدہ قومیت کے نظریہ کو جاننا ازبس ضروری ہے۔ ہندوستان کبھی بھی یکجا حالت میں موجود نہ تھا۔ یہ مسلم حکمران تھے جنہوں نے مختلف اکائیوں میں تقسیم راجواڑوں کو فتح کرنے کے بعد ہندوستان کو ایک اکائی اور وحدت کی شکل دی تھی۔
پھر انگریز نے ہندوستان پر قبضہ جما لیا۔ جب یہ قبضہ برقرار رکھنا ممکن نہ رہا تو ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں سوچ بچار شروع ہوئی۔ کانگرس اس نظریہ کی پرچارک تھی کہ قومیت کی بنیاد وطن ہے، مذہب نہیں لہذا ہندوستان کو اسی حالت میں آزادی دے دی جائے۔ آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کو ایک جدا قوم تصور کرتی تھی جس کی تہذیب تمدن روایات تاریخ ہندوؤں سے بالکل مختلف ہے۔ کانگرس اور اس کی ہمنوا جمیعت علماء ہند، مجلس احرار، سرخپوش تحریک نے وطنی قومیت کے نظریہ کا شد و مد سے پرچار شروع کر دیا۔ علامہ اقبالؒ وفات سے پہلے شدید علالت کے دور سے گزر رہے تھے جب انہوں نے قومیت پر فکری مباحث کے دوران مولانا حسین احمد مدنی کے جواب میں ایک معرکۃ الآراء مقالہ بعنوان ‘جغرافیائی حدود اور مسلمان’ تحریر کیا جو اخبار احسان میں مؤرخہ 9 مارچ 1938ء کو شائع ہوا جس میں دریا کو کوزے میں سموتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے یہ ناقابل فراموش تاریخی الفاظ رقم کیے تھے:۔
[حضور رسالت مآب ﷺ کے لیے یہ راہ بہت آسان تھی کہ آپؐ ابولہب یا ابوجہل یا کفار مکہ سے یہ فرماتے کہ “تم اپنی بت پرستی پر قائم رہو مگر اس نسلی اور وطنی اشتراک کی بناء پر جو ہمارے اور تمھارے درمیان موجود ہے، ایک وحدت عربیہ قائم کی جا سکتی ہے۔ اگر حضور ﷺ نعوذ باللہ یہ راہ اختیار کرتے تو اس میں شک نہیں کہ یہ ایک وطن دوست کی راہ ہوتی لیکن نبئ آخر الزمان ﷺ کی راہ نہ ہوتی۔”]
اس مقالے نے وطنی قومیت کے نظریہ کی بنیاد پر برسر عمل جمیعت علماء ہند، مجلس احرار اور سرخپوش تحریک کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ کانگرس کے اکھنڈ بھارت کے خواب کو چکنا چور کر دیا۔ 1946ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی اور وہ مسلمان قوم کی بلاشرکت غیرے واحد نمائندہ جماعت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئی۔ کانگرس کو تقسیم ہند نوشتۂ دیوار نظر آئی۔ قیام پاکستان کی منزل قریب تر آ گئی۔ بالآخر قیام پاکستان کا اعلان ہوا۔ قائداعظمؒ نے گورنر جنرل کا حلف اٹھایا۔ لیاقت علی خان وزیراعظم مقرر ہوئے۔ المیہ یہ ہوا کہ قائداعظمؒ کی وفات اور لیاقت علی خان کی ایک افغان کے ہاتھوں پراسرار شہادت کے بعد مسلم لیگ کا نظریاتی تشخص بیحد مجروح ہوا۔ وطنی قومیت کے پرچارک باچا خان، عبدالصمد اچکزئی، کانگرسی مولوی حسب سابق سرگرم رہے۔ اکھنڈ بھارت کی علمبردار جمیعت علماء ہند کی باقیات نے قیام پاکستان کی حامی جمیعت علماء اسلام کو ہائی جیک کر لیا۔ یہ سب لوگ قیام پاکستان کی مخالفت کے سابقہ مؤقف پر قائم رہے۔ دو قومی نظریہ کے منکر رہے۔ قیام پاکستان کو غلط قرار دیتے رہے۔ اسی فکر و سوچ کو اپنے کارکنان کے ذریعے آگے بڑھاتے رہے۔ ان کے نظریاتی لٹریچر اور سٹڈی سرکلز میں قیام پاکستان کو انگریز کی سازش قرار دیا جاتا رہا۔ بدقسمتی کی انتہا دیکھیے کہ مسلم لیگ قائداعظمؒ علامہ اقبالؒ کے افکار کو اسی شد و مد سے اپنے کارکنان اور عوام تک پہنچانے میں ناکام رہی۔ جن جماعتوں کو تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیگ نے کارنر کر دیا تھا، وہ جارحانہ انداز میں آگے بڑھتے رہیں۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ ہر دور میں قائداعظمؒ کی جماعت مسلم لیگ کے نام پر مختلف دھڑے برسر عمل ضرور رہے مگر قائداعظمؒ کی فکری وراثت کو لے کر چلنے والا کوئی دھڑا موجود نہ رہا۔ تاریخ کا عظیم ترین المیہ ہے کہ قائداعظمؒ مزارقائدؒ میں دفن ہیں مگر ان دھڑوں نے ان کی فکری وراثت کے لاشے کو بے گور وکفن پھینک دیا ہے۔ اپنے باباؒ جان کی فکری وراثت کو لاوارث بے گور و کفن دیکھ قائداعظمؒ کے بیٹے بیٹیاں خون کے آنسو روتے ہیں۔ وہ شدید کرب سے دوچار ہیں۔ بابائے قوم کی روح بھی شدید ذیت میں مبتلا ہے۔ علامہ اقبالؒ کی روح بھی مزار اقبالؒ میں بےچین و بیقرار ہیں۔ اگر کوئی سکون چین قرار کی زندگی بسر کر رہا ہے تو وہ بابائے قوم کی نشانی مسلم لیگ کے نام پر قائم مختلف دھڑوں کی قیادتیں ہیں جنہوں نے قائداعظمؒ کی فکری وراثت کے لاشے کو لاوارث کی طرح بےگور و کفن چھوڑ دیا ہے جسے ان کے نظریاتی مخالفین گدھ کی طرح بیدردی سے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ یہ نظریاتی مخالفین قائداعظمؒ علامہ اقبالؒ کی فکری وراثت کے لاشے کی روز بیحرمتی کرتے ہیں مگر بابائے قوم کی فکری بیحرمتی پر بےحمیتی بےشرمی کی چادر اوڑھے خوابِ غفلت کی گہری نیند سونے والی مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں کی قیادتوں کی سوئی ہوئی غیرت جاگ ہی نہیں رہی۔ کیا ان قیادتوں کو صورِ اسرافیل کے علاوہ کوئی چیز جگا سکتی ہے؟