مسلم لیگ قاف کی سیاسی خودکشی — نعمان سلطان

0
50

سیاست میں کوئی بات بھی حرف آخر نہیں کل کے دشمن آج کے دوست بن جاتے ہیں اور حریف مخالفت پر اتر آتے ہیں.

کل کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں یہ بات کھل کر سامنے آئی.. آصف علی زرداری ایک مرتبہ پھر بادشاہ گر بن کر سرخ رو ہو گئے.

مسلم لیگ کو وقتی سہی لیکن دوبارہ وزیر اعلیٰ کی سیٹ مل گئی. پی ٹی آئی کو بھی عدالت کے ذریعے انصاف ملنے کی امید ہے.اس سارے معاملے میں اگر کوئی جماعت خسارے میں رہی تو وہ مسلم لیگ قاف ہے.

چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے آپس کے اتحاد اور سیاسی فراست کی وجہ سے وہ ہر حکومت کے لئے لازم و ملزوم تھے. پیپلزپارٹی نے ان کو قاتل لیگ کہا اور انہیں نائب وزیراعظم کا عہدہ دیا.. پی ٹی آئی نے انہیں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا اور پہلے سپیکر اور اب وزیراعلیٰ کے لئے اپنا امیدوار منتخب کیا.

مسلم لیگ ان کو پرویز مشرف کے سہولت کار اور مسلم لیگ کی تقسیم کے ذمہ دار قرار دیتے رہے اور ابھی مخلوط حکومت میں دو وزارتیں اور اگر پرویز الٰہی مان جاتے تو انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب کی آفر بھی تھی.

اس سب کی وجہ صرف چوہدریوں کا آپس میں اتفاق تھا جو کہ آصف علی زرداری نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اس نااتفاقی کی اصل وجہ سیاسی اختیار نوجوان نسل کے ہاتھ دینا ہے.

چوہدری سالک کا جھکاؤ ن لیگ کی طرف ہے جبکہ چوہدری مونس الٰہی کا جھکاؤ پی ٹی آئی کی طرف ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جیسے بڑے چوہدری معاملات کو آپس میں افہام تفہیم سے حل کرتے تھے ایسے ہی یہ بھی کرتے لیکن خون گرم ہونے کی وجہ سے دونوں اپنی انا کے اسیر رہے اور آخر ان کی ضد خاندان کی تقسیم کا باعث بنی.

عہدے وقتی ہوتے ہیں جبکہ خون کے رشتے ازلی ہوتے ہیں. نوجوان نسل نے رشتوں پر عہدوں کو فوقیت دے کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ بزرگوں کی سیاسی میراث کے اہل نہیں.

ان حالات میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ چوہدریوں نے اپنی سیاسی زندگی میں پہلا غلط فیصلہ کیا اور اگر انہوں نے اپنی غلطی کو بروقت نہ سدھارا تو مسلم لیگ قاف کا شیرازہ بکھر جائے گا.

Leave a reply