تاریخی شہروں کے متضاد مذہبی نام اور ان دو ممالک کا نقطہ نظر
مذہب دنیا کے تقریباً ہر معاشرے میں اولین اہمیت رکھتا ہے اور ہر معاشرہ مذہبی معاملات میں حساس پایا گیا ہے جبکہ جو معاشرے سیکولر یعنی مذہبی وابستگی سے بالاتر ہونے کے دعویدار ہیں وہاں مذہب ایک حیثیت ایک ثانوی چیز کی سی ہوتی ہے
ہمارا ملک پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے جہاں رہن سہن ، رسم و رواج نیز ہر پہلو میں مذہب کا عمل دخل نظر آتا ہے جبکہ ہمارے برعکس بھارت ایک سیکولر ملک ہونے کا دعویدار ہے اور سیکولر نظریات کے مطابق ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے ریاست کو غرض نہیں کہ کس کا مذہب کیا ہے اور کون کیسی روایات کا قائل ہے۔ ان دونوں ہمسایہ ممالک میں مذہبی تضاد اپنی جگہ مگر پاکستان حیران کن طور پر بھارت کے مقابلے میں مذہبی طور پر زیادہ روادار ثابت ہوا ہے جبکہ بھارت میں مذہبی جنون آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ آج ہم پاکستان اور بھارت کا تاریخی شہروں کے ناموں پر رویے کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کریںگے کہ مسلم پاکستان ہندو سکھ ناموں والے شہروں پر کتنا روادار ہے اور سیکولر انڈیا کس طرح مسلم دشمنی میں تاریخی شہروں کے نام بدل کر انکی تاریخی اہمیت کو سپوتاژ کر رہا ہے
پاکستان میں متعدد شہروں سڑکوں اور عمارتوں کے نام اس دھرتی کے ہںدو اور سکھ سپوتوں کے ناموں پر ہیں جنہوں نے ان شہروں میں زندگی گزاری ، ان شہروں کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور ان شہروں کی تاریخی حیثیت میں ان شخصیات کا نمایاں اثر پایا جاتا ہے اسی طرح بھارت میں بھی بہت سارے شہروں ، شاہراوں اور ریلوے اسٹیشنوں کے نام مسلمان فاتحین کے ناموں پر ہیں جنہوں نے ان شہروں کی بنیاد رکھی ، انکی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اگر پاکستان چاہے تو سکھ/ہندو نام والے شہروں کے نام آسانی سے تبدیل کر دے اور مسلم ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان کے اس اقدام کی مذمت بھی نہیں کی جا سکتی مگر پاکستان اور پاکستانی عوام کی مذہبی رواداری کو یہ گوارہ نہیں کہ ان شہروں سے ان کے تاریخی نام چھنے جائیں۔ ننکانہ صاحب سکھوں کا ایک مقدس شہر جہاں پر سکھ مذہب کے بانی گرو نانک کی پیدائش ہوئی یہاں ہر سال ہزاروں سکھ زائرین زیادت کیلئے آتے ہیں اور پھر کرتار پور راہداری کھول کر پاکستان نے مذہبی رواداری کی مثال قائم کر دی ہے کرتار پور میں گرو نانک کی آخری آرام گاہ ہے یہاں بھی یومیہ ہزاروں سکھ زائرین زیادت کیلئے آتے ہیں اس کے علاوہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا نام بھی سکھ مذہبی گرو کے نام پر ہے۔ پاکستان کے ان دو بڑے اہم شہروں کے سکھ نام آج بھی برقرار ہیں اسی طرح لاہور میں سرگنگا رام ہسپتال اور سر گنگا رام روڈ کے علاوہ لکشمی چوک ، گرو مانگٹ وغیرہ کے نام بھی جوں کا توں قائم ہے جو ان جگہوں کی تاریخی اہمیت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں کبھی کسی حلقے نے ان کو تبدیل کرنے کی بات نہیں کی اسکے علاوہ پورے پاکستان کے بہت سارے قصبوں کے ہندو سکھ نام ہیں جبکہ دوسری طرف سیکولر ہونے کا دعویدار مذہبی جنونی بھارت ہے جہاں بڑی تیزی کے ساتھ مسلم ناموں والے شہروں ، قصبوں اور عمارتوں کے نام تبدیل کیے جا رہے ہیں انکی شناخت چھینی جا رہی ہے جسکی تازہ مثال الہ آباد جیسے تاریخی شہر کا نام تبدیل کر کے "پریاگراج” رکھ دیا گیا جس سے شہر کی تاریخی حیثیت خراب ہو کر رہ گئی اسی طرح ضلع فیض آباد کا نام بدل کر "ایودھیہ” رکھ دیا گیا اس سب کے بعد بھارتی حکومتی تاریخی شہر آگرہ اور ریاست گجرات کے شہر احمد آباد کے نام بھی تبدیل کرنے کیلئے پرتول رہی ہے
مودی کی انتہا پسند حکومت آتے ہی اس رجحان میں تیزی واقع ہوئی ہے۔ راجھستان میں تین گاوں کے نام اس وجہ سے تبدیل کر دیے گئے کہ وہ سننے میں مسلم نام لگتے تھے
بھارت میں مسلم دشمنی کی بناء پر جس طرح مسلمانوں کی ثقافت اور تاریخ کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اسکی مثال نہیں ملتی مسلم نام والے شہروں کے نام تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان کو بھی ریلوے اسٹیشن اور سنگ میل سے غائب کیا جا رہا ہے۔ سیکولرازم کا مزاق اڑاتا بھارت دراصل مذہبی جنون کا شکار ملک بن چکا ہے جہاں مسلمانوں کی تہذیب اور ثقافت کا قتل عام ہو رہا ہے








