آج آزاد کشمیر کی 33اور جموں وکشمیر کی پاکستان میں موجود 12 سیٹوں پرگیارہویں عام انتخابات کا دن ہے، انتخابی امیدواروں کی کل تعداد 724 ہے جن میں سے 579 آزاد کشمیرکی 33سیٹوں کے لئے میدان میں اتریں گے جبکہ پاکستان میں موجود 12سیٹوں پر 145 امیدوار میدان میں ہیں۔ کرونا کی صورتحال کے پیش نظروفاقی ادارہ( این سی اوسی) نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر نے جس کے سربراہ اسد عمر ہیں نے 2ماہ قبل انتخابات ملتوی کرنے کرنے کا مشورہ دیا تھا جسے وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے رد کرکے الیکشنزکا نگاڑہ بجانے کو ترجیح دی ۔ اس سلسلے میں عوامی دھما چوکڑی، جوش و ولولہ، عزم واستقامت اور سیاسی سوجھ بوجھ اپنی جگہ لیکن دکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ یہ الیکشنز بھی پاکستان میں ہونے والے تمام الیکشنز کی طرح غیر متنازعہ نہیں ہونگے۔ پاکستان میں کبھی کوئی انتخابات ایسے نہیں ہوئے جس پر سب نے آمین کہا ہو ہر ہر ہارنے والا دھاندلی کے الزامات لگاتاہے اور کہتاہے کہ میرے ساتھ سخت زیادتی ہوئی ہے لیکن پانی پلوں سے بہہ جانے کے بعد یعنی بعد از انتخابات کہیں کوئی کسی کی نہیں سنتا۔ اس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ یہیں رکنے والا نہیں ہے۔قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی ، بلدیاتی انتخابات، عام انتخابات ، ضمنی انتخابات ، سینیٹ کے انتخابات حتی کہ یونین کونسلوں تک کے انتخابات کی شفافیت مشکوک ٹھہرتی ہے۔ تاریخی حوالے دیکر یا واقعاتی شہادتیں دیکر اس کالم کو ذہنی مشق نہیں بناتا اور یہ ویسے بھی ایک ایسا تسلیم شدہ امر ہے کہ جس سے کسی کو انکار نہیں کہ پاکستان میں انتخابات غیر متنازعہ نہیں ہوتے۔
یہاں جو امر زیادہ تکلیف دہ ہے وہ یہ ہے کہ جس جمہوریت کا راگ تمام سیاسی پارٹیاں دن رات الاپتی ہیں وہ بنیادہ طور پر جمہور یعنی عوام کا حق رائے دہی ہے یعنی عوام جسے چاہیں اقتدارسونپیں اور جسے چاہیں اقتدار سے محروم کردیں۔ اکثریتی ووٹ حاصل کرنیوالا حکومت بنائے اور اپنے انتخابی منشور کو عملی طور پر نافذ کرکے عوام الناس کی زندگیوں میں تبدیلیاں پیدا کرے، ان کی فلاح و بہبود کے کام کرے ان کے زندگیاں آسان کرے ، روزگار، صحت، تحفظ،تعلیم و تربیت کا انتظام کرے اور رہائشی سہولتیں پیدا کرے۔ عام انسان تک عدل انصاف کی سستی اور فوری فراہمی بھی ایک حکمران کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ الغرض ، جمہوریت کا حسن جمہور کی رائے دہی اور حق انتخاب سے منسلک ہے ۔ لیکن آج تک عوام کو وہ انتخابات سننا یا دکھنا نصیب نہیں ہونے جن میں ان کو احساس ہوا ہو کہ ان کے ووٹ کی طاقت کی کوئی اہمیت ہے۔ہر الیکشن یا تو سلیکشن کہلایا گیا یا انجیرڈ ، ہر جیتنے والا جیت کر بھی متنازعہ رہا اور ہارنے والے نے کبھی ہار تسلیم ہی نہیں کی۔
انتخابات کے متواتر غیر متنازعہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ شائید یہ ہے کہ وطن عزیز کے سیاسی عمائدین نے خود کبھی چاہا ہی نہیں کہ کوئی ایسا نظام وضح کیا جائے کہ انتخابات کی شفافیت پر کوئی حرف نہ آسکے ۔ اگر بھارت جیسا غربت کا ماراہوا ملک ایک ایسا نظام وضح کرسکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ بھارت کا سیاسی ماحول بھی کم وبیش ایسا ہی ہے جیسا کہ پاکستان کا ہے۔ یہاں وہاں دونوں جگہ جمہوریت نظام حکومت ہے اور جنتا جناردن ووٹ ڈال کر حکمران منتخب کرتی ہے ۔ سن1990کے اوائل میں انڈیا نے الیکٹرانک ووٹنگ کا آغاز کرکے اس مسلے کو کافی حد تک حل کرلیا ہے۔اسی طرح یورپ، امریکہ اور دیگر کئی ممالک نے انتخابات کے عمل شفاف بنا لیا ہے ، اب سیاسی مخالف بیان بازیاں تو چلتی رہتی ہیں لیکن مجموعی طورپر انتخابات سب کے لئے قابل قبول ہوتے ہیں۔ الزامات تو ان نظاموں پر بھی لگتے ہیں جیسے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں ہار کر لگائے اور تھوڑی بہت ہاو ہو کانگریس نے بھی انڈیا میں الیکشنز ہار کرکی لیکن عام عوام اور سسٹم کی جڑیں اس پراسس کے شفافیت پر اتنی مضبوطی سے یقین رکھ چکی ہیں کہ اس پر لگنے والے الزامات کو محض ٹھٹھ مخول یا ہوئی فائرنگ سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور نہ میڈیا میں اس سوچ کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ جو ہار جاتاہے اور لازمی طور پر جیتنے والے کو ٹوٹے دل سے ہی سہی لیکن مبارکباد کا پیغام ضرور دیتا ہے جبکہ ہمارے یہاں ایسا کوئی رواج ہی نہیں ہے۔ سسٹم کا استحصال کرنیوالوں نے پاکستان میں کبھی کوئی انتخابی سسٹم مضبوط ہونے ہی نہیں دیا اور اس تباہی میں سب شامل ہیں چاہے وہ سیاسی لیڈر شپ ہو، فوج ہو، عدلیہ ہو ، الیکشن کمیشن ہو اس بوسیدہ اور ناقابل یقین نظام انتخابات کے قیام اور عملداری میں سب شامل ہیں۔اور یہ سلسلہ مستقبل قریب میں رکتا نظر بھی نہیں آرہا۔ متازعہ انتخابات بہرصورت جمہور کے حق رائے دہی کا استحصال ہے اور یہ استحصال جانے کب تک جاری رہے گا۔
25-7_2021

Shares: