مذمتی کالم: بنام انور مقصود ،تحریر:شاہد نسیم چوہدری

anwar maqsood

پاکستان میں ادب اور فنونِ لطیفہ ہمیشہ سے ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان شعبوں میں کئی شخصیات نے اپنی ذہانت، بصیرت اور تخلیقی صلاحیتوں سے قوم کو شعور و آگہی فراہم کی ہے۔ ان میں انور مقصود جیسا نام بھی شامل ہے، جنہیں پاکستانی معاشرے میں طنز و مزاح کے حوالے سے ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں ان کی جانب سے نیوی کے فوجیوں کی شہادت پر طنزیہ الفاظ کا استعمال، خاص طور پر "ڈوب مرنا” جیسے الفاظ، نہایت افسوسناک اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف ان کی شخصیت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے بلکہ قوم کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچاتا ہے۔شہداء کا مقام اور قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔شہداء کسی بھی قوم کا فخر اور سرمایہ ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر قوم کی سلامتی اور آزادی کو یقینی بناتے ہیں، ان کا احترام ہر شہری کا فرض ہے۔ پاکستان نیوی کے اہلکار سمندروں میں اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ملک کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کی قربانیاں کسی بھی صورت معمولی نہیں ہیں۔ سمندر کی گہرائیوں میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا ایک ایسا عمل ہے جو نہایت ہمت اور بہادری کا متقاضی ہوتا ہے۔ انور مقصود جیسے سینئر اور باوقار ادیب کی جانب سے ان قربانیوں کا مذاق اڑانا نہ صرف شہداء کی توہین ہے بلکہ ان کے اہل خانہ اور پوری قوم کے جذبات کو بھی مجروح کرتا ہے۔ادب اور فنونِ لطیفہ کا مقصد ہمیشہ معاشرتی شعور کو بیدار کرنا اور عوام کو مثبت پیغام دینا رہا ہے۔ انور مقصود جیسے ادیب سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی تخلیقات اور بیانات میں نہ صرف الفاظ کا احتیاط سے استعمال کریں بلکہ ایسی حساس موضوعات پر خاص طور پر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ طنز و مزاح کا مطلب کسی کی تضحیک یا جذبات کو مجروح کرنا نہیں بلکہ مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اصلاح کی طرف راغب کرنا ہوتا ہے۔ مگر "ڈوب مرنا” جیسے الفاظ نہ صرف غیر اخلاقی ہیں بلکہ ان میں کسی بھی قسم کی دانشمندی یا مزاح کا پہلو بھی موجود نہیں۔اسےضعیف العمری کہیں یا غیر ذمہ داری؟۔

کچھ لوگ انور مقصود کے اس بیان کو ان کی ضعیف العمری اور بھول چوک کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، مگر یہ دلیل کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔ ضعیف العمری کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنے الفاظ کے اثرات کو سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے۔ اگرچہ ان کی عمر کا لحاظ کیا جا سکتا ہے، لیکن ایک عوامی شخصیت ہونے کے ناطے ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی زبان کا احتیاط سے استعمال کریں۔ ان کے چاہنے والوں میں ہر عمر کے لوگ شامل ہیں، اور ان کے بیانات براہ راست لوگوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔قوم کے جذبات پر اس بات کا شدید اثر پڑا ہے۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مسلح افواج کو عوام کی بھرپور حمایت اور محبت حاصل ہے۔ یہاں فوجیوں کو نہ صرف محافظ بلکہ قومی ہیرو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کی قربانیوں کا اعتراف ہر سطح پر کیا جاتا ہے۔ ایسے میں انور مقصود جیسے معروف فنکار کی جانب سے شہداء کا مذاق اڑانے والا بیان عوامی جذبات کو شدید ٹھیس پہنچاتا ہے۔ یہ بیان نہ صرف شہداء کے خاندانوں کے لیے باعثِ اذیت ہے بلکہ قوم کی مشترکہ یکجہتی اور قربانیوں کی قدردانی کے جذبے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔

اس بیان پرمعافی اور اصلاح کی ضرورت ہے۔یہ وقت انور مقصود کے لیے سنجیدگی سے غور کرنے کا ہے۔ ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے بیان پر معافی مانگیں اور اپنی غلطی کا اعتراف کریں۔ ایک معافی نہ صرف ان کے لیے عزت بحال کرنے کا سبب بن سکتی ہے بلکہ یہ ان کی جانب سے شہداء اور ان کے اہل خانہ کے لیے احترام کا اظہار بھی ہوگا۔ انور مقصود کو اپنی حیثیت اور مقام کا درست استعمال کرتے ہوئے ایسے بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے جو قوم کے اتحاد کو نقصان پہنچائیں۔

پاکستانی قوم ہمیشہ سے اپنے ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی آئی ہے۔ یہ شخصیات قوم کے اخلاقی رہنما بھی ہوتی ہیں، اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف سماج کے مسائل پر روشنی ڈالیں بلکہ ایسی مثال قائم کریں جو نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ بن سکے۔تحدیک نفاذ اردو کی سرپرست فاطمہ قمر صاحبہ نے انور مقصود کےاس بیان کا نوٹس لیتے ہو ئے سوشل میڈیا پر لکھا کہ انور مقصود ضعیف العمری میں گھٹیا بھانڈ بن چکا ہے۔شہادت کو ڈوب مرنا کہ کر,اس نے اسلامی شعار کا مذاق اڑایا ہے۔

بحثیت محب وطن راقم فاطمہ قمر صاحبہ کے بیان کی پرزور تائید کرتا ہے۔انور مقصود کا پڑھے لکھے خاندان سے تعلق ہونا اور فاطمہ ٹریا بجیا کا بھائی ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔۔۔۔ذبردست نقاد، کمال کا فنکار اور ادیب ہونا بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔۔۔۔۔۔جو اپنے ملک، اپنی فوج کے بارے تضحیک آمیز کلمات بول کر ۔۔۔اسے نقادی،ادیبی اور فنکاری کے کپڑے پہنائے۔۔۔۔۔۔معذرت کے ساتھ انتہائی احترام کے ساتھ ایسے ہر شخص کو ہم ۔۔۔۔اپنی جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں۔۔۔۔

انور مقصود کی جانب سے نیوی کے فوجیوں کی شہادت پر طنزیہ تبصرہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور قابل مذمت ہے۔ شہداء کی قربانیاں کسی بھی قوم کے لیے قابل احترام ہوتی ہیں، اور ان پر طنز کرنا ان کے اہل خانہ اور پوری قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔ انور مقصود جیسے معروف ادیب سے ایسے غیر حساس بیان کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ ان کے الفاظ نہ صرف شہداء کی قربانیوں کی توہین ہیں بلکہ یہ معاشرتی اخلاقیات اور ادب کے اصولوں کے بھی منافی ہیں۔ ہم ان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے بیان پر معافی مانگیں اور اپنی حیثیت کو مثبت انداز میں استعمال کریں تاکہ قوم کو یکجہتی اور احترام کے پیغام دیں۔ شہداء ہماری عزت اور فخر ہیں، ان کی قربانیوں کا احترام ہم سب پر فرض ہے۔۔۔۔۔میں فاطمہ قمر صاحبہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے۔۔۔انور مقصود کی باتوں کا نوٹس لیا۔۔اور باوجود اس کے کہ جناب موصوف کا تعلق بھی ہمارےقلم قبیلے سے ہے۔۔۔۔بتا دیا کہ پاکستان اور اسکی افواج پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ویلڈن آپا جی۔۔۔ویلڈن۔۔۔ انور مقصود جیسے فنکار کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت کو مثبت انداز میں استعمال کریں اور اپنے بیانات کے ذریعے قوم میں اتحاد، محبت، اور قربانیوں کا احترام پیدا کریں۔انور مقصود کے حالیہ بیان نے قوم کے دلوں میں ایک مایوسی کی لہر دوڑا دی ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یہ یاد دہانی کرواتا ہے کہ الفاظ کی اہمیت اور ان کے اثرات کو کبھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسلح افواج اور ان کے شہداء ہماری قومی یکجہتی کی بنیاد ہیں، اور ان کی قربانیوں کا احترام ہم سب پر فرض ہے۔ انور مقصود جیسے ادیب کو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگنی چاہیے اور اپنے الفاظ کے اثرات کو سمجھتے ہوئے آئندہ محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ادب اور فن کی اصل روح یہی ہے کہ وہ معاشرے میں مثبت تبدیلی لائے اور ایسی مثال قائم کرے جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہو۔

نوٹ: آج۔کا یہ مذمتی کالم بنام انور مقصود بڑے دکھی دل کے ساتھ لکھا ہے،لیکن پاکستانی افواج کی عزت اور شہداءکے احترام پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔۔

shahid naseem

Comments are closed.