ایک ایسا شجر جو اپنے مکینوں کیلئے ایک ٹھنڈی چھاوءں ہے ۔ ایک ایسا شجر جو صرف میٹھا پھل دیتا ہے ۔ ایک ایسا شجر جس کی جڑیں اگر کمزور بھی ہو جائیں تو اپنے مکینوں کے لئے وہ ڈٹ کر کھڑا رہتا ہے ۔ ایک ایسا شجر جو دھوپ ، گرمی اور سردی کی پرواہ کئے بغیر فقط اپنے مکینوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے۔ ایک ایسا شجر جو اپنی طاقت اور صحت کو اپنے مکینوں کیلئے صرف کرتا ہے۔
بھلا کون میرے لئے اتنا اہم ہے؟ بے لوث ہے اور بے غرض میری ہر خواہش کو اپنی خواہش پر مقدم رکھنے والا اور مجھے اپنے سے بھی بلند مقام پر دیکھ کر خوش ہونے والا، میرا چہرہ دیکھ کر میرا احوال سمجھنے والا میری خوشی اور غم کا اندازہ درست لگانے والا بھلا کون ہو سکتا ہے؟ جی ہاں آپ نے صحیح پہچانا وہی تو میرا “عظیم باپ” ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج والد کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کا مقصد بچے کے لیے والد کی محبت اور تربیت میں ان کے کردار کو اجاگر کرنا ہے۔
فادرز ڈے کو منانے کا آغاز 19 جون 1910 میں واشنگٹن میں ہوا۔ اس کا خیال ایک خاتون سنورا سمارٹ ڈوڈ نے اس وقت پیش کیا جب وہ ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر ایک خطاب سن رہی تھیں۔ماں کے مرنے کے بعد سنورا کی پرورش ان کے والد ولیم سمارٹ نے کی تھی اور وہ چاہتی تھیں کہ اپنے والد کو بتاسکیں کہ وہ ان کے لیے کتنے اہم ہیں۔چونکہ ولیم کی پیدائش جون میں ہوئی تھی، اس لیے سنورا نے 19 جون کو پہلا فادرز ڈے منایا۔
میں اس خوبصورت شخص کا ذکر کر رہی ہوں جس کا آج دن ہے ۔ باپ جو ایک مہربان ساتھی ، ایک مخلص دوست ، ایک ختمی سہارا، ایک مکمل رہنما اور زندگی کی دھوپ چھاوء ں کا ساتھی ہوتا ہے۔ وہی باپ جو خود ۵۰۰ کی چپل پہن کر اپنی اولاد کو ۵۰۰۰ کا جوتا لا کر دیتا ہے۔ جو اپنی ہر ضرورت حتی کہ دوائی تک کو پس پشت ڈال کر اپنی اولاد کی ہر خواہش کا احترام کرتا ہے۔
ہر باپ کیلئے اپنی اولاد اسکی کل جمع پونجی ہوتی ہے مگر جب بات بیٹی کی آۓ تو بیٹی تو باپ کی شہزادی ہوتی ہے۔ باپ اسکے پیدا ہونے سے لیکر ہی اسکے ناز نخرے ایسے اٹھاتا ہے جیسے وہُ کسی سلطنت کی شہزادی ہو۔ اور بیٹیاں بھی باپ سے فرمائشیں کرتے نہیں تھکتی۔
باپ کی فضیلیت اور اہمیت پہ قرآن و حدیث میں بہت زور دیا گیا ہے۔ اور اس بات سے ہم انکار نہیں کر سکتے مگر میرا آج قلم اٹھانے کا مقصد فقط وہ باپ ہیں جو اپنئ ساری زندگی کی جمع پونجی اپنی اولاد پہ لٹا کر اب اولڈ ہاوءس میں اپنی زندگی کے خری لمحات گن رہے ہیں – سات فیصد پاکستان اپنی زندگی کے آخری لمحات اولڈ ہومز میں گزار رہے ہیں – مگر یہ اولڈ ہوم کلچر نہ تو میرے ملک کا کلچر ہے نہ ہماری روایات ہی اس کلچر کو قبول کرنے کی روادار ہیں – ہم مغرب کی اندھا دھند تقلید میں اتنے مگن ہو گئے کہ ہمیں احساس ہی نہ ہوا کہ ہم اپنے کل کیلئے کتنا بڑا نقصان کا اور گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں -لاکھوں والدین ہمارے منتظر ہیں جنہیں ہم نے آگے بڑہ کر گلے لگانا ہے۔
مگر مکافات کی چکی پہ یقین رکھتے ہوئے ہمیں بھی اپنے بڑھاپے کے دنوں کیلئے کوئی اولڈ ہوم دیکھ لینا چاہیے- چلیں آج کے دن ایک قدم اچھائی اور محبت کا بڑھاتے ہوئے اپنے ان والدین سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہیں جو اولڈ ہومز میں ہیں اور اب سے عہد کرتے ہیں کہ والدین کی اس خوبصورت زمینداری اور اس نعمت کو نخوبی نبھائیں
<Writer Aqsa Younas
Aqsa Younas
Aqsa Younas is a Freelance Journalist Content Writer, Blogger/Columnist and Social Media Activist. He is associated with various leading digital media sites in Pakistan and writes columns on political, international as well as social issues. To find out more about her work on her Twitter account
https://twitter.com/AqsaRana890