نوے کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن پر طنز مزاح شائستگی اور فکر سے لبریز ایک ڈرامہ سیریل ’’گیسٹ ہاؤس’’ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔معروف ترین کرداروں میں باؤ نوید ، مراد اور خوش نامِ زمانہ ریمبو کا کردار تھا ، جو یقیناً افرنگی تمثیل نگاری کے دبستان ہالی ووڈ کی ایک فلم کے کردار سے مملو تھا، اس کردار کو پاکستان کی تہذیب شناخت اور ثقافت میں ڈھالنے کا سہرا پی ٹی وی ہی کے نام ہے، معروفِ زمانہ کردار ریمبو کا تکیہ کلام ’’ مائی نیم از ریمبو ریمبو جان ریمبو کاکروچ کلر‘‘ تھا،شگفتگی شائستگی اور بے ساختہ اداکاری نے افضل خان کا اصل نام منہا کردیا، ایک زمانےتک بزرگ اور بچوں کی زبان پر یہی مکالمے ہوتے تھے۔۔۔ پی ٹی وی کے ڈرامے اس قدر پراثر اور تربیت افزا ہوتےتھےکہ کسی معروف ڈرامہ سیریل کے وقت میں شہر کی سڑکیں سنسان ہوجایا کرتی تھیں،ڈرامے تو خیرڈرامے ہی تھے ٹی وی پر آنے والے اشتہارات بھی ہماری تہذیب اور اقدار کا پتہ دیتے تھے۔ وقت کروٹیں بدلتا رہا، پی ٹی وی کا شعبہ تمثیل نگاری(ڈرامہ) آہستہ آہستہ اپنی وقت کھونے لگا، کیوں کہ متبادل کے طور پر نجی ٹی وی چینلوں نے ناظرین کے ذہنوں پر اپنے پنجے گاڑنے شروع کردیے تھے، مسابقت اور جدت کی اس دوڑ نے ہماری تہذیب ثقافت اور تربیت میں بگاڑ لانا شروع کیا، ہیجان انگیز موضوعات ، ذو معنی جملوں اور نیم لباسی کی جانب رواں دواں ملبوسات نے ابتدا میں معاشرے کے افراد کو ذہنی اذیت دینا شروع کی، اس بے سروپا نام نہاد فیشن اور تہذیب وثقافت سے دوری پر ناظرین کی جانب سے آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں مگر انہیں اسی دلدل کے منفعت پرستوں نے ’’ نہیں دیکھنا تو کوئی اور چینل دیکھ لو، ریموٹ آپ کے ہاتھ میں ہے چینل بدل لو’’ کا نفسیاتی حربہ استعمال کرتے ہوئے آہستہ آہستہ خاموش اور بعد ازاں عادی کردیا، یوں نئی مسلط شدہ جدت اور فیشن نے پیاز کی پرتیں اتارنی شروع کردیں،۔۔میری اس بات سے اختلاف رکھنے والے دوست زرا شکیب جلالی کا نوحہ تو سن لیں۔۔۔
کیا کہوں دیدۂ تر ، یہ تو مِرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
بیس بائیس سال کی مسلسل مغربی تہذیبی یلغار نے ہماری تہذیب ثقافت کا چہرہ نوچنا شروع کردیا،بعد ازاں موبائل فون کے پردہ ٔ سیمیں نے ہر ایک گوشہ عافیت کو اپنے رنگ میں رنگنا شروع کردیا اور ماں باپ کی طرف سے ملنے والی تربیت بھی مفقود ہوتی گئی، رہی سہی کسر مائکرو بلاگنگ، فیس بک، یوٹیوب ، ٹک ٹاک اور سنیک ویڈیو نے پوری کردی، یہاں میں کئی ایسی ایپلیکیشنز کا ذکر قصداً نہیں کررہا ہوں کہ انسانی تجسس کہیں کچے ذہنوں کو اس غلاظت کی جانب نہ لے جائے جہاں مردو و زن کے پوشیدہ امور محض پیسوں کے لیے براہِ راست نشرکیے جاتے ہیں، بیس سال کی مسلسل عدم توجہی اور بے جاآزادی نے نئی نسل کو موج مستی مذاق شہرت اور اضافی آمدن میں مبتلا کرکےہمیں فکری طور پر کھوکھلا کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹک ٹاک یا اس جیسی دیگر ایپس نے نشے کی طرح نئی نسل کے دماغوں پر قابو پالیا، اب معاملہ ہیپٹانزم کے عامل اور معمول والا ہی رہ گیا ہے، ایک دوسرے سے مسابقت طے کرنے میں نئی نسل کے مرد و زن کونہ تہذیب کا خیال رہا نہ ہی قومی و مذہبی اقدار کا، حال ہی میں پاکستان کے یومِ آزادی پر ایک اندوہناک سانحہ ہوا، جو کسی بھی طور قابلِ معافی نہیں،۔۔۔
ایک تو عین پاکستان کے جشنِ آزادی کے دن واقعہ رونما ہوا دوم یہ کہ جائے واقعہ قراردادِ پاکستان کے سینے کی میخ یعنی مینارِ پاکستان کے احاطہ میں ہوا، واضح رہے یہ خبر تین روز تک پوشیدہ رہی، عین اس وقت جب ہم پاکستان کا جشنِ آزادی منارہے تھے پڑوسی ملک افغانستان میں انتقالِ اقتدار کا مرحلہ طے ہورہا تھا، پندرہ اگست کو تقریباً پورا افغانستان نئی حکومت کے زیرِ انصرام آچکا تھا، یہ وہ وقت تھا جب اففانستان میں پاکستان کے خلاف بھارت کے لگائے ہوئے اربوں ڈالر کی روایتی اور انسانی مشینری کو دھچکہ پہنچا تھا، پاکستان میں عوام الناس بھارت کی اس خفت پر خوب لتے لے رہے تھے، بھارتی عوام ، عنان حکومت اور مین اسٹریم میڈیا اپنے یومِ آزادی کی بجائے افغانستان میں ہونے والی خفت کو مٹانے کی کوشش کررہا تھا، یہ صورتحال پاکستان دشمنوں اورنام نہادلبرلوں جنہیں خونی لبرل کہنا زیادہ درست ہے کو ایک آنکھ نہ بھایا،یوں عین ایامِ عزا میں ساتویں محرم کو لاہور مینارِ پاکستان پر ہونے والے سانحے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی اور ساتھ ساتھ مین اسٹریم میڈیا کے افراد کی کمک بھی دستیاب ہوئی، عام آدمی کتنا ہی محتاط اور تحقیق طلب کیوں نہ ہو ایسے مواقع پر جذباتی ہوجاتا ہے، یہی ہوا پاکستان اور پاکستان سے باہر بسنے والے عوامِ پاکستان اس معاملے پر اشتعا ل میں آگئے یوں یہ خبر واقعہ کے عین تین روز بعد سوشل میڈیا ٹرینڈنگ کرتی ہوئی عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی جاگزیں ہوئی، زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے مرد و زن نے اس واقعہ کی نہ صرف مذمت کی، اپنے جذبات کا اظہار کیا بلکہ مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا، جب ہمیں یہ خبر موصول ہوئی تو ہمیں آئندہ کے سوشل میڈیا موضوع کا عندیہ بھی دے دیا کہ قوم اب افغان ہندوستان موضوع کو چھوڑ کر اس جانب پر تولنے کو ہے، جذباتی تو ہم بھی ہوئے مگر مینارِ پاکستان کا نام آتے ہی شکوک نے جنم لیا، تیس گھنٹوں تک ہم خاموشی سے اس خبر اور اس خبر سے جڑی ہوئی تفصیلات کھوجنے میں مصروف رہے، اس دوران عوام میں تین طبقاتِ فکر نے دھڑے بندی مکمل کرلی تھی، ایک جو جذباتی ہوکر عائشہ اکرم بیگ سے ہونے والی بدسلوکی اور زیادتی پر مجرموں کے لیے سزاؤں کے طالب تھے، دوسرا طبقہ فکر محدودات کے تتبع میں خاتون ٹک ٹاکر کی حدود سے باہر نکل کر ویڈیو بنانے اور عوام کو رجھانے پر طعنہ زن تھے، عین اس وقت تیسرا طبقہ فکر بھی میدان میں کود پڑا جنہیں ہمیں عرفِ عام میں فیمینسٹ کہتے ہیں، اس تیسرے طبقہ فکر نے اپنے ہم خیالوں کی آشیر باد سے معاملہ کو ملکی و بین الاقوامی میڈیا تک پہنچایا، بھارت کے وہ مخصوص چہرے جو ہمیشہ پاکستان کے خلاف عف عف بھو بھو کرتے رہے انہوں نے شہ سرخیاں جمائیں، ۔۔
پاکستان سے محبت رکھنے والے افراد جو کسی وجہ سے ففتھ جنریشن ہائبرڈ وار کا سبق جذبات سے مغلوب ہوکر بھول بیٹھے تھے انہیں اچانک وہ سبق یاد آگئے بھارت کے کود پڑنے ، نام نہاد لبرلوں ، فیمینسٹ گروپ اور ملکی میڈیا میں موجود ملک کی بےعزتی کرنے کو کوئی موقع ہاتھ نے نہ جانے دینے والوں کی سرکوبی کے لیے نوجوان سراغ رسانوں نے تلاش بسیار کے بعد کچھ ایسے حوالے کھنگال ہی لیے جن سے یہ پورا معاملہ مشکوک ٹھہرتا ہے، اول تو خاتون عائشہ اکرم بیگ کا وہ ویڈیو جس میں ایک اکاؤنٹ سسپینڈ ہونے کا نوحہ اور ان کے ساتھی ریمبو (جس کے لیے ہم نے تمہید باندھی) کا سرپرائز دینے اور فین فالوئنگ کو مینارِ پاکستان پر ملاقات اور سیلفی کی نوید دی گئی تھی، دوم یہ کہ خاتون نے واقعہ کے بعد اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نہ کوئی ذکر کیا بلکہ ہنستے کھیلتے کئی تصاویر بھی شائع کیں، مزید یہ کہ درجن بھر افراد کی ٹولی جو خاتون کے بقول پارٹنرز تھے کے ساتھ تقریباً چار سے پانچ گھنٹے گزارے، عینی شاہدین اور اقبال پارک کی انتظامیہ کے بیانات سے ثابت ہوا کہ خاتون کو جانے کے کئی مواقع ملے مگر انہوں نے فین کو ہوائی بوسے ارسال کرنے میں وقت گزارا، سوم یہ خبر کے سامنے آنے والی رات اچانک دو یوٹیوبر بشمول میڈیا اینکر اس خاتون کی داد رسی کو پہنچے اور اور معاملے کی باگ اپنے ہاتھ کرلی، اس خبر کے پھیلنے کے بعد ٹک ٹاکر کے اکاؤنٹ پر ایک لاک سے زائد افراد نے رجوع اور فالو کیا،پولیس کے عام تفتیشی اصول پر بھی پرکھا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ واقعہ کا فائدہ کسے ہوا، یوں عائشہ نامی خاتون کے ساتھی ریمبو دی فالورز کلیکٹر کی ملی بھگت کا سراغ ملتا ہے، واضح رہے موضوع سے متعلق تمام مواد اس وقت سوشل میڈیا پر عوامی تبصروں کے ساتھ پھیل چکا ہے یعنی ہماری بات کی تصدیق کے لیے آپ کو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں،۔۔
اس طویل دورانیے کے ڈرامے میں ان سطور کے قلمبند ہونے کے دوران خاتون کا ایک انٹرویو بھی سامنے آیا، اور ساتھ ساتھ یہ خبر بھی سامنے آئی کے عائشہ اکرم بیگ اور ان کا ریمبو پولیس نے شاملِ تفتیش اور حوالات میں ہے، واقعہ کا اثر ایسا تھا کہ خبر اور رائے کے اختلاف میں ہماری نسل نے تمام حدود وقیود کو پھلانگ کر اختلافِ رائے رکھنے والوں کی ذاتی کردارکشی بھی شروع کردی، ایک عجیب طوفانِ بدتمیزی نے جنم لیا نہ تو مرد وزن کی تفریق رہی اور نہ ہی پیر و جوان کی، جس کے جو منھ میں آیا اسے انگلیوں کی حرکت سے سوشل میڈیا کے صفحات میں انڈیل دیا گیا، خیر قصہ کوتاہ پولیس کو کیس پر کام نہ کرنے کا عندیہ دینے کے بعد عائشہ اکرم بیگ کا کردار مزید مشکوک ہوگیا، بعد ازاں سرکار کی مدعیت میں کیس کااندراج ہوا لیکن خاتون نے اپنا رہائشی پتہ غلط لکھوا کر کارِ سرکار میں رکاوٹ کا ذمہ بھی اپنے سر لے لیا، میری اولین دانست اور اس کیس کے بغور مشاہدے کے بعد میں تاحال اس معاملے میں پورے معاملے کو مشکوک گردانتا ہوں، بنیادی وجہ پاکستان کی جگ ہنسائی ہی ہے، کیس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا یہ نتیجہ اخذ کرنا کوئی مشکل امر ہرگز نہیں، میڈیکو لیگل کی رپورٹ کے مطابق خاتون کے جسم پر ضربوں اور زخموں کے نشانات پائے گئے ہیں، تین گھنٹے سے زائد طوالت کی ویڈیوز میں خاردار تاروں کو پھلانگنے اور بھیڑ کے دباؤ کے تحت کوئی بھی زخمی ہوسکتا ہے، لیکن یہ کہنا کہ خاتون بے ہوش اور بے لباس ہوچکی تھی کسی بھی طور پر درست معلوم نہیں ہوتا، مخصوص طبقہ نے جو ویڈیو وائرل کی اس میں زد و کوب کا عنصر تو شامل ہے مگر بے لباسی و دیگر الزامات کی نفی ہوتی ہے، اس پورے واقعے میں ایک اور بدترین کردار سوشل میڈیا صارفین کا رہا جنہوں نے اس حادثے پر چٹخارے دار وی لاگ جذبات برانگیختہ کرنے والے عنوانات اور تصاویر سے اپنے یوٹیوب چینلوں پر عام عوام کوتماش بینوں کی طرح جمع کیا۔۔۔
سوشل میڈیا پر ڈالروں کے حصول کی دوڑ میں مبتلا افراد نے اس ہیجان سے جہاں فائدہ اٹھایا وہیں مین اسٹریم میڈیا نے اپنی ریٹنگ (ٹی آرپی) کے حصول کی جنگ میں عشرہ محرم کے تقدس کو بھی پامال کیا، وہ لمحات جو خانوادۂ رسول ﷺ کی عظیم قربانیوں کو یاد کرنے اور ظلم و جبر سے ٹکرانے کے درس کے حصول کے تھے ان لمحات کو ایک مشکوک خبر کی نذر کردیا،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریاستی ادارے فوراً حرکت میں آتے اور اس معاملے پر قوم کو آگاہ کرتے مگر ہمیشہ کی طرح دیر سے خبر پہنچی، کیا یہ محض اتفاق ہے کہ عین اس دن جب موجودہ حکومت کو ٹھیک تین سال مکمل ہورہے تھے اور عوام حکومتی کارکردگی پر گفتگو کرتے، وہ وقت اس چومکھی جنگ کی طرح پھیلی خبر کی نذر ہوا، افغانستان میں انتقالِ اقتدار ، بھارت کی سبکی، عشرہ محرم اور حکومتی کارکردگی پر سوال جواب کا دورانیہ بلکہ امروز پائلٹ آٖفیسر راشد منہاس شہید کا دن بھی اس تاحال مشکوک رہنے والی خبر کی نذر ہوگیا، اربابِ اقتدار ہوں یا احبابِ فکر و دانش امید ہے کہ ان چار عوامل پرآپ اپنی نگاہ کیجے گا اور اس معاملے کی شفافیت اور حساسیت کو نظر انداز نہ کریں گے۔ امید کی جاتی ہے کہ حکومتی نمائندے اس معاملے میں عوام کو درست اقدامات اور خبر سے خود آگاہ رکھیں گے تاکہ معاشرے میں پھیلی بے چینی کا زور ٹوٹ سکے۔۔۔
(انصافستان)