ریاست پاکستان اور سیاسی بازی گری ، تحریر محمد نعیم شہزاد

0
46

ریاست پاکستان اور سیاسی بازی گری
محمد نعیم شہزاد

ریاست پاکستان انعام خداوندی ہے اور صحیح معنوں میں اسلام کا قلعہ مانی جاتی ہے۔ اس میں کمال یقیناً اس ایقان و یقین کا ہے جو ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اسی جذبہ ایمانی کی بدولت پاکستانی قوم دنیا میں اپنا ایک خاص تعارف رکھتی ہے۔ اور یہی قوت ہماری صلاحیتوں کو چار چاند لگاتی ہے اور کامیابیوں سے ہمکنار کرتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے سیاسی نظام کی بات کی جائے تو پاکستان ایک ایسا جمہوری ملک ہے جہاں جمہوری نظریات پنپتے دکھائی نہیں دیتے ہیں اور ہر کوئی اپنی دوکان چمکاتا نظر آتا ہے۔ ہر صاحب اقتدار جمہوریت کا منتخب ہونے کا دعویدار ہے اور ہر مخالف منتخب حکومت میں سقم ثابت کرنے پر تلا نظر آتا ہے۔ اپنے مختصر عرصہ حیات میں میں نے ایک بھی ایسی حکومت نہیں دیکھی جس کو اپوزیشن نے جائز حکومت تسلیم کیا ہو۔ دھاندلی، سلیکٹڈ حکومت، پری پلان حکومت وغیرہ کے نعرے ہی بار بار سننے کو ملتے ہیں۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بجائے اس کے کہ سیاسی جماعتیں بالغ نظری کا مظاہرہ کرتیں، ان نعروں اور اعتراضات میں بھی جدت آئی ہے۔ انہی جدتوں میں ایک مخالف پارٹی پر مذہب کے نام پر الزام تراشی اور بہتان بازی بھی ہے۔

میری گزارشات کا مطمع نظر بعض ناپسندیدہ پہلوؤں کی نشاندہی اور اصلاح احوال کی کوشش ہے۔ اس امید پر کہ

شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

سابقہ تاریخ کو دہرانے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ہم موجودہ حکومت اور اس کے مخالفین کے طرز عمل سے چند مثالیں بیان کرنے پر اکتفا کریں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان پر جہاں اور بہت سے اعتراضات کیے گئے وہیں ایک اعتراض "یہودی ایجنٹ” اور "قادیانی نواز” بھی ہے۔ عمران خان اپنے سیاسی کیریئر کے 22 سال بعد وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب تک انھیں یہ وزارت نہ ملی تھی یا ان کی پارٹی ایک مضبوط عوامی طاقت کے طور پر سامنے نہ آئی تھی، یہ الزامی سیاست کہاں تھی؟ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ان ہتھکنڈوں کا مقصد محض کسی کی عوامی مقبولیت کو کم کرنا اور شخصیت کو متنازع و داغدار بنانا ہے۔ اور اس کی ضرورت تب ہی ہو گی جب کوئی کسی اہم منصب پر پہنچ جائے۔ ورنہ سابقہ 22 برس کی سیاست میں یہ الزامات لگے ہوتے تو یہ شخص اس مقام پر پہنچنے سے پہلے ہی عوامی حلقوں میں تنقید کا شکار ہوتا۔ پھر وزیراعظم کی کارکردگی اور پالیسیوں کو دیکھا جائے تو بھی یہ تاثر زائل ہو جاتا ہے۔ ایک ایسا وزیر اعظم جو ایک شخص کو محض قادیانی ہونے کی بنا پر علی الاعلان مالی مشیر مقرر نہ کرے اور بین الاقوامی فورم پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسلام اور پیغمبر اسلام کا دفاع کرے اس کے ایمان اور اسلام سے وفاداری پر حرف اٹھانا بعید از قیاس ہے۔ دین اسلام بھی یہی تعلیم دیتا ہے کہ دوسروں سے حسن ظن رکھا جائے تو یہ کیسا کمال ہے کہ ہم زبردستی خود ساختہ گستاخی کے فتوے اور اسلام دشمنی کے منصوبے کسی سے منسوب کر دیں۔ اسی دورہ امریکہ کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی تبدیلی سامنے آئی تو ایک بار پھر پورے زور سے منیر احمد شیخ کو قادیانی اور حکومت کو قادیانی نواز قرار دینے کی بھرپور کیمپین چلی مگر موثر ثابت نہ ہو سکی۔

آنے والے دنوں میں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن صاحب اسلام آباد میں دھرنے کا پلان رکھتے ہیں۔ دھرنے کے مقاصد کو اسلام سے جوڑا جا رہا ہے اور یہ اعتراض سامنے آ رہا ہے کہ مولانا مذہب کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ان کو دھرنے سے روکنے کی کوششوں میں جن طریقوں توہین مذہب کو روا رکھا جا رہا ہے شاید وہ خان صاحب کے جنرل اسمبلی میں کیے گئے خطاب کا منہ چڑا رہے ہیں۔ سیاسی مقاصد یا کسی بھی طرح کے مفاد کے لیے مذہب کا استعمال قابل مذمت ہے تو سیاسی مخاصمت کی آڑ میں مذہب دشمنی اور توہین مذہب بھی قابل مذمت ہے۔ جس طرح سے مولانا کے دھرنے کے حوالے سے مبینہ ہدایت نامہ، شرائط نامہ اور پھر اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے نوٹیفکیشن سوشل میڈیا پر دکھا کر پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور دھرنے کے ممکنہ غیر اخلاقی مضمرات بیان کیے جا رہے ہیں کیا حکومتی جماعت کو ان مضمرات سے آگاہی اب حاصل ہوئی ہے؟

بہرحال کوشش کی جائے کہ معاملات کو باہم افہام و تفہیم سے حل کیا جائے اور اگر فریق مخالف پر تنقید و تنقیح کے بغیر چارہ کار نہ ہو تو بہر صورت اخلاقی حدود قیود کا خیال رکھا جائے اور معاشرے میں مثبت رویوں کو رجحان دیا جائے۔ الزامی سیاست، مذہب کارڈ اور مذہب مخالف سوچ سے گریز کیا جائے اور اپنی جماعت کو کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے سامنے پیش کیا جائے نہ کہ دوسروں پر کیچڑ اچھال کر خود کو صاف ستھرا دکھانے کی کوشش کی جائے۔

Leave a reply