ناکام ترین تبدیلی سرکار، تحریر: نوید شیخ

0
68

ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی تاریخ کی ناکام ترین تبدیلی سرکار حکومت محض ٹائم پاس کر رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا ہے کہ اس ناکام تجربہ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک کی معیشت زمین بوس ہے تو گوورننس زندہ درگور ہو چکی ہے۔ عوام کا نظام قانون پر اعتبار اٹھ چکا ہے ۔ کیونکہ ہر طاقت ور اس دور میں اپنی عدالت خود لگا کر بیٹھا ہوا ہے ۔ ۔ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ دیوالیہ ہوگیا ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ ۔ وزیراعظم عمران خان کی تقریریں سنیں تو لگتا ہے زمین پر کھڑے ہو کر مریخ کی مخلوق سے مخاطب ہیں۔ دعوے ان کے یہ ہیں کہ غریب آدمی اوپر جا رہا ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ غریب آدمی واقعی ہی اوپر جا رہا ہے ۔ بھوک سے مر کر ۔۔۔ حقائق یہ ہیں کہ امیر مقروض ہو رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ساڑھے تین سال تو بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو نہیں ملے ۔ عمران خان کو جو حمایت میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ سے ملی وہ کسی کو نصیب نہیں ہوئی ۔ ۔ اب آپ خود ہی دیکھ لیئں کہ وزیر اعظم کے دورہ خیبرپختونخوا اور پاکستان کارڈ کی لانچنگ کی خبروں پر الیکشن کمیشن خیبرپختونخوا کی جانب سے وزیر اعظم کو خط لکھا گیا جس میں انہیں دورہ نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق متعلقہ یونین کونسلز میں داخلے پر پابندی ہے ۔ کیونکہ بلدیاتی الیکشن کی تاریخ طے ہونے کے بعد کسی منصوبے کا افتتاح نہیں ہوسکتا ۔

۔ پر وہ کپتان ہی کیا جو کسی ضابطہ اخلاق ، آئین یا قانون کی خلاف ورزی نہ کرے ۔ یہ بھاشن جتنے مرضی جھاڑیں پر ان کا ہر کام غیر قانونی اور غیر آئینی ہی ہوتا ہے ۔ آج بڑے دھڑلے سے عمران خان پشاور گئے ہیں اور حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے ۔ احساس راشن کارڈ ، صحت کارڈ ، پاکستان میں پیڑول سستا ہے ۔ ہم نے یہ کر دیا ہے ، ہم نے وہ کردیا ہے ۔ پاکستان کو فلاحی ریاست بنا دیا ہے ۔ پاکستان دنیا میں سستا ترین ملک ہے۔ کہہ کر چلے گئے ۔ اور بتا دیا کہ الیکشن کمیشن اور اسکے خط کی حیثیت اور اوقات ان کی نظر میں کیا ہے ۔۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے جو دھونس اور دھاندلی ان کے وزیر کر رہے ہیں الامان الحفیظ ۔۔۔ چند روز پہلے جو علی امین گنڈا پور نے اپنے بھائی فیصل امین کی کمپین کے دوران تڑیاں لگائی ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ ۔ موجودہ حکومت کی آئینی مدت میں ابھی 20 ماہ کا طویل عرصہ باقی رہتا ہے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ اس حکومت نے یہ مزید وقت گزار لیا تو پتہ نہیں پاکستان کا کیا بنے گا ۔۔ دیکھا جائے تو پاکستان کے آئین کے مطابق حکومت کا دورانیہ پانچ سال ہے۔ لیکن آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ اگر کوئی حکومت آ جائے تو پانچ سال پتھر پر لکیر ہیں۔۔ اب سننے میں آیا ہے کہ مسلم لیگ ن کے رہنما ایاز صادق پنجاب اور وفاق میں ان ہاؤس تبدیلی کا مشن لے کر نواز شریف سے ملاقات کیلئے لندن پہنچ چکے ہیں ۔ندن میں ایاز صادق نواز شریف سے ملاقات کریں گے اور ان ہاؤس تبدیلی کیلئے انہیں قائل کریں گے ۔ ۔ ایاز صادق دراصل پیپلزپارٹی کے سید خورشاہ کے فارمولے کے خدوخال سے نواز شریف کو آگاہ کریں گے ۔ پھر ان ہاوس تبدیلی سے متعلق پیپلزپارٹی سے ہونے والے رابطوں کا ذکر بھی کریں گے ۔ ۔ ساتھ ہی ایاز صادق پاکستان تحریک انصاف کے 25 سے زائد ناراض ارکان اسمبلی کی فہرست بھی ن لیگی قائد کے حوالے کریں گے ۔ پارٹی قائد کی جانب سے گرین سگنل ملنے پر ناراض ارکان کو اپنے ساتھ ملایا جائے گا۔ بدلے میں ناراض حکومتی ارکان اگلا انتخاب مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے لڑیں گے ۔

۔ یوں اگر نواز شریف قائل ہوگئے تو پھر ن لیگ پیپلزپارٹی سے مل کر ان ہاؤس تبدیلی کی تیاری کرے گی ۔ ۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سکیم کامیاب ہوگی کہ نہیں ۔ میں بس یہ یاد کروادوں کہ گورنر پنجاب چوہدری سرور بھی لندن میں ہی موجود ہیں ۔ اور اپنی ہی حکومت پر خوب گرج بھی رہے ہیں اور برس بھی رہے ہیں ۔ اس لیے اس میں تو کوئی ابہام نہیں ہے کہ بہت سے پی ٹی آئی والے پرواز کرنا چاہتے ہیں ۔ کیونکہ اگلا الیکشن اس کارکردگی کے ساتھ لڑنا انتہائی مشکل ہوگا ۔ ۔ ویسے لندن سے جو چوہا رپورٹیں آرہی ہیں ان کے مطابق اپوزیشن نے حکومت کو پارلیمنٹ کےاندرٹف ٹائم دینے کاارادہ کر لیا ہے۔ نوازشریف نے اِن ہاوس تبدیلی کے لیے گرین سگنل بھی دے دیا ہے۔ نوازشریف نے مولانا فضل الرحمان کو پیپلز پارٹی کو آن بورڈ لانے کا ٹاسک بھی سونپ دیا ہے۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی قیادت جو پہلے تحریک عدم اعتماد پر قائل نہیں تھی۔ اب تحریک عدم اعتماد لانے کی بات کر رہی ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ جب دو ہفتے پہلے شہباز شریف سے سوال پوچھا گیا کہ کیا پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے؟ توانہوں نے جواب دیا ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے۔ ابھی بتایا یہ جا رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے مرحلہ وار تحریک عدم اعتماد لانے پر اتفاق کیا ہے ۔ کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے تجویز پیش کی گئی کہ اِن ہاوس تبدیلی مرحلہ وار لائی جائے جس میں پہلے چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک لائی جائے گی۔ پھر پنجاب اور آخر میں وفاق میں اگر کپتان نے وقت سے پہلے الیکشن کا اعلان نہ کیا تو ۔۔۔ ۔ فی الحال حالات کا تقاضا ہے کہ اس وقت پاکستان کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس پر بیرونی دنیا اور اپنے عوام بھی بھروسہ کریں۔ کوئی لاکھ اختلاف کرے مگر اس وقت عوام نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو دوبارہ یاد کررہے ہیں۔ بدقسمتی سمجھیں یا خوش قسمتی مگر یہی حقائق ہیں۔ ۔ اب اگر اسٹیبلشمنٹ بھی ان سے معاملہ کرنے میں کامیاب ہو گئی تو شاید کوئی بہتری آ سکے ورنہ قیمہ والی مشین میں گوشت ڈال ہی دیا گیا ہے۔ اس کا ثابت نکلنا ممکن نہیں۔

۔ آپ خود دیکھ لیں این اے 133 لاہور میں پیپلز پارٹی نے 34000 ووٹ لیے ہیں۔ اتنے لوگ اب عمران خان لاہور میں کسی جلسے میں اکٹھے نہیں کر سکتے۔ اسی رزلٹ کو دیکھتے ہوئے سابق صدر آصف زرداری نے پنجاب میں پوری قوت کے ساتھ بلدیاتی الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ اور لاہور سمیت پورے پنجاب میں پارٹی کو مضبوط کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1979
کی طرح لاہورکے بلدیاتی الیکشن میں کلین سوئپ کریں گے۔۔ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اب پی ٹی آئی بڑے جلسے نہیں کرسکتی ۔ کہ ابھی دو دن پہلے اسلام آباد میں کامیاب جوان کے ڈرامے کو کامیاب بنانے کے لیے جس طرح سرکاری تعلیمی اداروں سے طلبہ و طالبات کو جبری لایا گیا وہ بھی سامنے ہے ۔ جو سرکاری نوٹیفیکشن اور ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں جس میں طلبہ نعرے لگا رہے ہیں۔ گلی گلی میں شور ہے ۔ عمران خان چور ہے ۔ اس کے بعد کچھ باقی رہ جاتا ہے ۔ ان میں شرم ہوتی تو ڈوب مرتے ۔ یاد رکھیں یہ وہ ہی پارٹی اور عمران خان ہیں جو ن لیگ کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ پٹواریوں کی مدد سے یہ جلسے کرتے ہیں ۔ میں آپکو بتاوں ایک نالائق اور نااہل حکومت کو کسی بھی وقت آئینی طریقہ سے گھر بھیجا جا سکتا ہے اور یہ کوئی غیر قانونی کام نہیں ہے ۔ یہ سب آئین پاکستان میں لکھا ہے ۔ تو اگر اپوزیشن آئینی طریقہ سے تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ تو اس نااہل اور نکمی حکومت سے عوام کو چھٹکارا مل سکتا ہے ۔ باقی جو اس تبدیلی سرکار نے ملک کا بیڑہ غرق کرنا تھا وہ یہ کر چکے ہیں ۔ کیونکہ سچ یہ ہے کہ مڈل کلاس ختم ہو گئی ہے ۔ مڈل کلاس غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی۔ غریب فقیر ہوگئے ہیں اور فقیر مجرم ۔ ۔ کل جو جو کچھ پاکستان کے مختلف شہروں میں ہوا ہے۔ اس کے بعد کوئی شک رہ گیا ہے کہ پاکستان مالی، معاشی، روایتی، سماجی اور اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو گیا ہے ۔ اسٹیٹ بینک تک اب حکومت کا نہیں رہا ۔ میری نظر میں بیرونی قرضوں کے نیچے دبی ہوئی قوم تین ماہ سے زیادہ ان حالات کا سامنا نہیں کر پائے گی۔ ۔ حکمرانوں کی زبان پر دنیا کو بھروسہ ہے نہ پاکستانیوں کو ۔۔۔ یاد رکھیں دنیا زبان و بیان کے بھروسے پر چلا کرتی ہے۔ اداکاری اور جھوٹ سے نہیں۔ ۔ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی حکومت میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو ماضی کی کرپٹ حکومتوں کا حصہ تھے اور دوسرے وہ جو بالکل نا تجربہ کار تھے لیکن گز گزلمبی زبانیں رکھتے ہیں ۔ ماضی میں 18 وفاقی وزارتیں رکھنے کی دعویدار تحریک انصاف کی قیادت نے تقریباً 60اہم عہدے اور وزارتیں اپنی پارٹی والوں کو دے رکھی ہیں اور اندرون ملک ہی نہیں باہر سے آنے والے اپنے دوستوں کو بھی اہم عہدے دے رکھے ہیں جن پر ماہانہ کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔

اب اس ناکام تجربہ کو ساڑھے تین سال گذر چکے ہیں اور نا تجربہ کاری اور نا اہلی کی وجہ سے اس حکومت نے ملک کی کشتی ایک ایسے بھنور میں پھنسا دی ہے۔ کہ اس دلدل سے نکلنا اب ناممکن دیکھائی دیتا ہے ۔ ۔ اس لیے لوگوں کا ہر سروے ہر جگہ ایک ایک ہی مطالبہ ہے کہ کسی طرح ہماری اس تبدیلی سے جان چھڑوائی جائے ۔

Leave a reply