عربی زبان میں لفظ "صلوٰۃ” (نماز) کے لیے استعمال ہوا ہے، جس کے لغوی معنی "دعا” کے ہیں۔
نماز اسلام کے بنیادی ارکان میں سے دوسرا ایک اہم رکن ہے۔اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر ہے، توحید (اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا، حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں)، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔
قرآن کریم میں سات سو(٧٠٠) مقامات پر نماز (صلوٰۃ) کا ذکر ہوا ہے، جبکہ
اسی (٨٠) مقامات پر اس کا صریح حکم دیا گیا ہے۔ اس امر سے دین اسلام میں عبادات کے لحاظ سے نماز کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
نماز ہی توحید و رسالت کی گواہی اور اس کی عملی تصدیق کا پہلا قدم ہے۔ارکان اسلام میں سے یہ امتیاز صرف نماز کو ہی حاصل ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیاء کرام کے ادوار میں ہر امت پر نماز فرض رہی ہے۔
نماز شبِ معراج کے موقع پر فرض کی گئی۔
معراج کا سفر گویا کہ ظلم و تشدد اور جہالت کے دور کے خاتمے کی نوید تھا۔
حضرت انس بن مالکؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ،
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کردیں میں اس کے ساتھ واپس لوٹا تو جب میں راستے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کہ،
اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟میں نے کہا پچاس نمازیں کہنے لگے اپنے رب کے پاس واپس جائیں اس لئے کہ آپ کی امت ان کی ادائیگی نہیں کر پائے گی ۔ سو آپ ﷺ نے اللہ رب العزت سے التجا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کردیا۔ میں حضرت موسیٰ کے پاس آیا اور کہا کہ پروردگار نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا ہے۔ وہ کہنے لگے آپ اپنے رب کے ہاں پھر واپس جائیں کیوں کہ آپ کی امت اس کی طاقت بھی نہیں رکھتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اللّٰه تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری دی تو اللہ نے ان کا ایک حصہ بھی معاف فرما دیا۔ لیکن جب پھر میں واپس حضرت موسیٰ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جانے کا کہا۔ اب کی بار اللّٰہ رب العالمین نے فرمایا یہ پانچ نمازیں اصل میں پچاس نمازوں کا اجر اور ثواب رکھیں گی،
میں پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ ایک بار اور اپنے رب کی طرف رجوع فرمائیں لیکن اس بار میں نے کہا اب مجھے اپنے رب سے حیاء آتی ہے۔ (صحیح بخاری)
قرآن و سنت اور حدیث کی رو سے نماز کی ادائیگی کے پانچ اوقات ہیں۔
فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں جا بجا نماز کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہےکہ ، نماز قائم کرو اور زکوہ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (البقرہ ۴۳،)
کائناتِ ارض و سماں کی ہر مخلوق اپنے اپنے تئیں بارگاہِ الٰہی میں صلوٰۃ اور تسبیح و تحمید کرتی نظر آتی ہے۔
نماز کی تاریخ کی بات کریں تو نماز کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی ہمارے مذہب اسلام کی۔
اور یہ ہر دور میں فرض رہی ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے ہوا ہے کہ نماز پڑھنا ہرگز مشکل نہیں ان لوگوں کے لیے جو اللہ تعالی اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
ارشادہوا،
” بیشک نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے مگر ان لوگوں کے لیے نہیں جو خشوع و خضوع کے ساتھ میری طرف جھکتے ہیں، جنہیں اپنے رب کے ملنے پر یقین ہے اور وہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (البقرہ ۴۵،۴۶)
بعض اصطلاحات میں نماز (صلاۃ) کے معنی دعاء، رحمت اور استغفار کے ہیں، اسلام نے نماز کو ایک اہم فریضہ کے طور پر مختص کیا ہے۔
نماز انسان کی اپنے خالق کے ساتھ تعلق کا ایک مظہر ہے، اور اس کے مذہبی واجبات میں سے ایک واجب رکن ہے۔
نماز میں دو عناصر پائے جاتے ہیں: اللہ رب العزت کی عظمت وتخلیق پر اس کا شکرگزار ہونا، اور دوسرا اللہ رب العزت سے طلب کا عنصر ہے، کہ جس سے جب سوال کیا جاتا ہے تو وہ اپنے بندے کو جواب دیتا ہے،۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ،
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد مانگو، بیشک اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘
(البقرة، 2 : 153)
سورۃ البقرۃ کی ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ،
’’بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے، نماز کو قائم رکھا اور زکوٰۃ دیتے رہے ان کے لیے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر ہے، اور ان پر آخرت میں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمزدہ ہوں گے‘‘
نماز جو کہ ایمان اور کفر کے درمیان امتیاز کرتی ہے۔ ابتدائے اسلام ہی سے مسلمانوں کا معمول رہی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابتداء ہی سے نماز ادا فرماتے تھے۔
جب کبھی آپﷺ صحن حرم میں نماز ادا فرماتے تو وہاں پر قریش آپ ﷺ کو ایزاء دینے کی کو شش کرتے ۔ کبھی آپ کا تمسخر اڑاتے،کبھی آپ ﷺ کی گردن مبارک میں رسی ڈال دیتے ۔تو کبھی تو سجدہ کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نجاست ڈال دیا کرتے تھے۔
قریش کی ان حرکات کی وجہ سے عام مسلمان رات کی تاریکی میں نماز پڑھتے یا دن میں ادھر اُدھر چھپ کر نماز ادا کرتے۔
اِس کے علاوہ بھی کثیر احادیث مبارکہ میں نماز کی فضیلتِ بیان کی گئی ہے، اور نماز ادا نہ کرنے پر سخت وعید آئی ہے۔اور نماز نہ ادا کرنے والوں کو منافقین سے تشبیع دی گئی ہے،
نماز میں سستی کرنا منافقین کی نشانی ہے۔ (القرآن)
حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ،
’’جس شخص نے صبح کی نماز پڑھی تو گویا کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہے اور جس شخص نے اﷲ تعالیٰ کی ذمہ داری میں مداخلت کی، اﷲ تعالیٰ اس کو منہ کے بل جہنم میں گرا دے گا۔‘‘
قرآن و حدیث کی رو سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ہر مسلمان (مرد و عورت) پر پانچوں نمازیں پابندی سے ادا کرنا فرض ہے۔
نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حدیث پاک میں بچپن ہی سے نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو۔
دن اور رات یعنی چوبیس گھنٹوں میں اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں اور ان میں سے ہرنماز کی فرضیت کا تعلق اپنے وقت کے ساتھ منسلک ہے،چنانچہ مقررہ وقت پر ہی نماز کو ادا کرنا چاہیے، بے وقت نماز کی ادائیگی قضا کے زمرے میں آتی ہے۔
قرآن مجید میں ک ارشاد باری تعالیٰ ہے
’’بیشک ہم نے اسے (نماز) کو اس کے مقرر وقت میں مومنین پر فرض کیا ہے‘‘۔(سورہ نساء آیت ۱۰۳)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں وقت کی پابندی کرتے ہوئے اسے اپنے وقت پر پڑھنا ضروری ہے اور اس کو قضا کر دینا گناہ ہے۔
ایک اور حدیث کے مطابق
نماز کو وقت پر پڑھنا افضل ترین اعمال میں سے ہے۔(مسلم)
نماز کو چھوڑ دینا بہت ہی سخت گناہ اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے. اس لئے ابھی بھی وقت ہے، توبہ کر لیں، اپنے رَبّ کو راضی کر لیں یہی دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کی ضمانت ہے۔
نماز نہ پڑھنا کافروں کا طریقہ ہے، ایک حدیث کے مطابق
"بندے اور کفر کے درمیان فرق نماز چھوڑنا ہے”۔ (مسلم)
اسلئیے بطور مسلمان ہمیں چاہیے کہ نماز مقرر وقت پر پابندی سے ادا کریں ،اور اپنے بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالیں تاکہ دین و دنیا دونوں میں رب کائنات کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔
@_aqsasiddique








