ننکانہ صاحب( باغی ٹی وی،نامہ نگاراحسان اللہ ایاز کی رپورٹ) فیسوں کا بوجھ، تعلیم کا زوال، پرائیویٹ اسکول مافیا بے قابو،عوام کی چیخیں
تفصیلات کے مطابق پرائیویٹ اسکولوں کی بڑھتی ہوئی خود مختاری اور من مانے قوانین نے تعلیم جیسے بنیادی حق کو کاروبار میں تبدیل کر دیا ہے۔ والدین اور طلبہ شدید مالی اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں اور حکومت سے سخت اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پرائیویٹ اسکولوں کی بے ضابطگیاں
1. فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ:
پرائیویٹ اسکول اپنی مرضی سے فیسوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ واچر سلپ، امتحانات اور دیگر نام نہاد اخراجات کے نام پر والدین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اضافی رقوم ادا کریں۔
2. تعطیلات میں فیس وصولی:
سرکاری طور پر گرمیوں اور سردیوں کی تعطیلات کے باوجود اسکول مکمل فیس وصول کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، اساتذہ کو ان چھٹیوں کے دوران کوئی تنخواہ نہیں دی جاتی۔
3. بنیادی سہولیات کا فقدان:
بیشتر سکولوں میں طلبہ کو معیاری تعلیمی ماحول فراہم نہیں کیا جاتا۔ کلاس رومز میں ٹوٹی ہوئی میزیں، خراب پنکھے، پانی کی قلت اور گنجائش سے زیادہ طلبہ جیسے مسائل عام ہیں۔
4. جبری خریداری:
پرائیویٹ اسکول انتظامیہ طلبہ کے والدین کو مجبور کرتی ہے کہ وہ مخصوص ڈیلرز سے کاپیاں، کتابیں اور یونیفارم خریدیں، جن پر اضافی کمیشن وصول کیا جاتا ہے۔
5. معیار تعلیم کی خرابی:
تعلیم کے بجائے اسکول صرف پیسہ کمانے پر توجہ دے رہے ہیں۔ اساتذہ کی مناسب تربیت اور طلبہ کی تعلیمی ضروریات پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
6. نفسیاتی اثرات:
زیادہ فیس یا دیگر اخراجات نہ دے سکنے والے طلبہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں، جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی اور نفسیاتی حالت متاثر ہوتی ہے۔
والدین اور عوام نے حکومت سے پرزور اپیل کی ہے کہ:
1.پرائیویٹ اسکولوں کی خود مختاری ختم کی جائے اور ان کے قوانین کو حکومتی نگرانی میں لایا جائے۔
2.فیسوں میں اضافے اور غیر ضروری چارجز پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں۔
3.اسکولوں کی باقاعدگی سے جانچ پڑتال کی جائے تاکہ تعلیمی معیار اور سہولیات کو یقینی بنایا جا سکے۔
4.گورنمنٹ اسکولوں کو بہتر بنا کر عوام کو معیاری اور کم خرچ تعلیم کی سہولت فراہم کی جائے۔
حل کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت
پرائیویٹ اسکولوں کے مسائل صرف ننکانہ صاحب تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے۔ حکومت کو فوری طور پر سخت قوانین نافذ کرتے ہوئے والدین اور طلبہ کو ریلیف فراہم کرنا ہوگا۔ گورنمنٹ اسکولوں میں سہولیات کی فراہمی اور معیاری تعلیم کے فروغ سے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
تعلیم کسی کا حق چھیننے کا ذریعہ نہیں بلکہ معاشرے کو بہتر بنانے کا ایک وسیلہ ہونا چاہیے۔ حکومت کو اس اہم مسئلے پر فوری ایکشن لینا ہوگا۔