عدالت نےنقیب اللہ محسود قتل کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا

0
62

کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت نےنقیب اللہ محسود قتل کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔

باغی ٹی وی : نقیب اللہ محسود قتل کیس کا تحریری فیصلہ 42 صفحات پر مشتمل ہے جس کے مطابق عدالت نے راؤ انوار سمیت 18 ملزمان کو مقدمے سے بری کیا ہے جب کہ 7 مفرور ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے اور کہا کہ مفرور ملزمان جب بھی اور جہاں بھی ملیں گرفتارکیا جائے۔

نقیب اللہ قتل کیس کا عدالت نے سنایا فیصلہ

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہےکہ مقدمے میں شکوک و شہبات پائے گئے، اسلامی اور یونیورسل اصول کے تحت شکوک و شہبات کا فائدہ ملزم کے حق میں جاتا ہے یہ اصول ہے کہ قاضی کی غلطی سے سزا دینے سے بریت بہتر فیصلہ ہے، عدالت کی نظر میں استغاثہ کیس ثابت نہیں کرسکی اس لیے ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق وکیل صفائی نے کہا کہ ملزمان کے خلاف سی ڈی آر گواہی کے طور پر پیش کی گئی، راؤ انوار کو اس مقدمے میں پیشہ وارانہ بغض کی بنیاد پر پھنسایا گیا جب کہ کسی گواہ نے راؤ انوار کو شناخت نہیں کیا تھا۔

گزشتہ روز کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللّٰہ قتل کیس کا فیصلہ سنا یا تھا راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا عدالت نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔کیس میں مدعی مقدمہ کے وکلاء اور ملزمان کے وکلاء کے دلائل کے بعد 14 جنوری کو فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔

پیپلز پارٹی کے رہنما سابق اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ کے بیٹے پر فائرنگ

جج نے فیصلہ سنانے سے پہلے کہا کہ نقیب اللہ کا اغوا اور جائے وقوع پر ان کا قتل ثابت ہوا ہے جبکہ نقیب اللہ پر دہشت گردی کی ایف آئی آر سی کلاس ہونے کے بعد اسے چیلینج نہ کیے جانے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ بےگناہ تھے تاہم عدالت نے قانونی اور تیکنیکی بنیادوں پر اس معاملے کا جائزہ لیا ہے جس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نامزد ملزمان اس قتل میں ملوث تھے۔

اس کیس میں مدعیان کی قانونی ٹیم کے رکن وکیل جبران ناصر نے کہا ہے کہ نقیب محسود کے اہل خانہ اس فیصلے کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کریں گے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’توانائی سے انصاف تک پاکستان میں ہر چیز کا بریک ڈاؤن ہو رہا ہے۔

سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئےملزمان میں ڈی ایس پی قمر احمد، امان اللّٰہ مروت اور دیگر شامل ہیں نقیب اللّٰہ قتل کیس کے فیصلے کے سبب عدالت میں سیکیورٹی سخت کی گئی تھی-

اپنی بریت کے فیصلے پر راؤ انوار نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جج نے ہمارے ساتھ انصاف کیا۔ جب تک سانس ہے تب تک لڑوں گا پولیس مقابلے کا دفاع کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میرے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ جھوٹا کیس انجام کو پہنچ گیا۔

گجرات جیل میں ہنگامہ آرائی ،قیدیوں سے مذاکرات کامیاب، حالات پر قابو پالیا گیا

واضح رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ اور ان کے تین ساتھیوں کو 13 جنوری 2018 کی صبح کراچی میں مبینہ جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا تھا اور اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار دعویٰ کیا تھا کہ پولیس نے مارے جانے والے چاروں افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان سے بتایا تھا نقیب اللہ محسود کے اہلخانہ نے پولیس کے مؤقف کو مسترد کر دیا تھا اور واقعے کا سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا۔

نقیب اللہ کے والد اور اہلخانہ اس پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیتے رہے اور ان کا موقف تھا کہ نقیب اللہ کا کسی شدت پسند گروہ سے کوئی تعلق نہیں تھا اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے بھی پولیس کی جانب سے مقابلے کے دعوے کو مسترد کیا تھا۔

بعدازاں جنوری 2019 میں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ہی نقیب اللہ محسود کے خلاف دہشت گردی، اسلحہ و بارود رکھنے کے الزام میں دائر پانچوں مقدمات خارج کردیئے تھے اور قرار دیا تھا کہ نقیب اللہ کے سوشل میڈیا پروفائل سے معلوم ہوتا ہے کہ ‘وہ ایک لبرل، فن سے محبت کرنے والا نوجوان تھا جو ماڈل بننے کا خواہشمند تھا-

ٹھٹھہ : چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث 2 مرکزی ملزمان گرفتار

متعلقہ کیس میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت 18 ملزمان پر 25 مارچ 2018 کو فرد جرم عائد کی گئی تھی، انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 51 گواہان کے بیان ریکارڈ کیے تھے نقیب اللہ محسود قتل کیس میں راؤ انوار اور سابق ڈی ایس پی قمر احمد ضمانت پر تھے جبکہ 13 ملزمان جیل میں ہیں کیس میں نامزد سابق ایس ایچ اور امان اللہ مروت سمیت 7 ملزمان مفرور ہیں۔

حتمی دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے 14 جنوری کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، نقیب اللہ محسود قتل کیس تقریباً 5 سال عدالت میں زیر سماعت رہا۔

Leave a reply