اردو کے مایہ ناز شاعر ناصر کاظمی کا یوم پیدائش

0
71

اردو زبان کے مایہ ناز شاعر، اردو غزل کو نیا پیرہن عطا کرنے والے تقسیم اور ہجرت کی تکلیف اور اثرات کو موضوع سخن بنایا.

اردو کے مایہ ناز شاعر ناصر کاظمی 8 ، دسمبر، 1925ء کو بھارتی ریاست ہریانہ کے ضلع انبالہ میں پیدا ہوئے، 1945ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ برگ نے شائع ہوا جس نے شائع ہوتے ہی انہیں اردو غزل کے صف اول کے شعرامیں لاکھڑاکیا۔ناصر کاظمی غزل کو زندگی بنا کر اسی کی دھن میں دن رات مست رہے۔

ناصر نے غزل کی تجدید کی اور اپنی جیتی جاگتی شاعری سے غزل کا وقار بحال کیا جن میں میڈیم نور جہاں کی آواز میں گائی ہوئی غزل ’’دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ‘‘ناصر کاظمی نے پیروی میر کرتے ہوئے ذاتی غموں کو شعروں میں سمویا لیکن ان کا اظہار غم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔ ناصر کے اظہار میں شدت اور کرختگی نہیں بلکہ احساس کی ایک دھیمی جھلک ہے جو روح میں اترتی محسوس ہوتی ہے اور جب ان کے اشعار سر اور تال کے ساتھ مل کر سماعتوں تک پہنچتے ہیں تو ایک خوشگوار احساس دلوں میں ہلکورے لیتا ہے۔

ناصر کاظمی 2 مارچ، 1972ء کو لاہور میں وفات پاگئے اور مومن پورہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں، ان کی لوح مزار پر انہی کا یہ شعر تحریر ہے۔ دائم آباد رہے گی۔

ناصر کاظمی کا یوم وفات پر ان کے کچھ منتخب اشعار بطورِ خراج عقیدت.

اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
۔۔۔۔۔۔۔
یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل
۔۔۔۔۔۔۔
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
۔۔۔۔۔۔۔
جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
۔۔۔۔۔۔۔
تیری مجبوریاں درست مگر
تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر
۔۔۔۔۔۔۔
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
۔۔۔۔۔۔۔
دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے
۔۔۔۔۔۔۔
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
۔۔۔۔۔۔۔
گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے
۔۔۔۔۔۔۔
مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں
۔۔۔۔۔۔۔
جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
۔۔۔۔۔۔۔
کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
۔۔۔۔۔۔۔
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
اس شہر بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
۔۔۔۔۔۔۔
وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں
۔۔۔۔۔۔۔
یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں
۔۔۔۔۔۔۔
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا
۔۔۔۔۔۔۔
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے
۔۔۔۔۔۔۔
جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا.

Leave a reply