نعتیہ ادب کا اوّلین ستون محسن کاکوروی

0
122

سخن کو رتبہ ملا ہے میری زبان کے لیے
زباں ملی ہے مجھے نعت کے بیاں کے لیے
ازل میں جب ہوئیں تقسیم نعمتیں محسنؔ
کلام ِ نعتیہ رکھا میری زباں کے لیے

سید محمد محسن کاکوروی کو ’’حسانِ وقت‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ محسن کاکوروی نعتیہ ادب کا اوّلین ستون ہیں۔ محمد محسن نام، مولوی حسن بخش کےبیٹے تھےجن کا سلسلہ نسب علی المرتضیٰ سے ملتا ہےمحسن کا کوروی کی پیدائش 1242ھ 1825ء اودھ کے قصبے کاکوری میں ہوئی۔ بادی علی اشک کے شاگرد تھے۔ امیر مینائی سے بھی مشورہ سخن کیا۔ علوم متداولہ کے حصول کے بعد انگریزی تعلیم حاصل کی اور عدالتی کاموں میں مشغول ہوگئے۔

محسن کاکوروی نے ابتدا میں غزلیں قصیدے اورمثنویاں لکھیں۔ اس کے بعد ساری عمر نعت گوئی کی اورنعت کے سوا کچھ نہیں لکھا۔ محسن کاکوروی اُردو کےاوّلین عظیم شاعرہیں جن کی شاعری کا موضوع نعت ہےآپ نےمحض سولہ سال کی عمرمیں ایک ایساشان دارنعتیہ قصیدہ لکھا جو خیالات کی پاکیزگی، جذبات کی صداقت، ندرتِ بیان اور تعظیم و محبت کے حدود میں قائم رہنے کی وجہ سے ایک شاہ کار قصیدہ سمجھاجاتا ہے۔ محسنؔ کا قصیدہ سراپائے رسول‘‘بھی کافی مقبولیت رکھتا ہے۔ محسنؔ نے قصائد کے علاوہ کئی مذہبی مثنویاں بھی لکھیں۔ آپ کا کلام مختلف امتحانات کے نصاب میں شامل ہے۔

ان کا کلیات نعت شائع ہو گیا ہے۔ مشہور قصیدہ "سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل” ہے۔ 24 اپریل 1905ء کو مین پوری میں وفات پائی
….
دامن سے وہ پونچھتا ہے آنسو
رونے کا کچھ آج ہی مزا ہے
…..
دیکھیے ہوگا شری کرشن کا درشن کیوں کر
سینۂ تنگ میں دل گوپیوں کا ہے بے کل
….
نہ دین کے ہوئے محسن ہم اور نہ دنیا کے
بتوں سے ہم نہ ملے اور ہمیں خدا نہ ملا
….
راکھیاں لے کے سلونوں کی برہمن نکلیں
تار بارش کا تو ٹوٹے کوئی ساعت کوئی پل
….
سنا ہے محتسب بھی تاک میں ہے دختر رز کی
الٰہی رکھ لے تو حرمت شراب ارغوانی کی
.
رباعی
مولا کی نوازشِ نہاں کھلتی ہے
عزت مری پیشِ قدسیاں کھلتی ہے
کہہ دو کہ ملک گوش بر آواز رہیں
مداحِ پیمبر کی زباں کھلتی ہے
.
محسن کاکوروی

Leave a reply