پاکستان سے اسمگل ہونیوالے نایاب کچھوے کتنے میں فروخت کئے جاتے ہیں؟ جان کر حیران رہ جائیں

0
49

صوبہ سندھ کے محکمہ جنگلی حیات نے کچھووں کی نایاب نسل” بلیک پونڈ” کی اسمگلنگ کی کوشش ناکام بنا دی-

باغی ٹی وی : برطانوی ادارے "بی بی سی اردو” کے مطابق صوبہ سندھ کے محکمہ جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ انھوں نے 42 قیمتی کچھوؤں کی سمگلنگ کی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے ان کچھوؤں کو اُن کے قدرتی مسکن میں واپس چھوڑ دیا ہے۔

محکمہ وائلڈ لائف سندھ کے اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ بین الاقوامی سمگلر بلیک پونڈ نسل کے ایک کچھوے کی قیمت مقامی سمگلرز کو 80 ہزار پاکستانی روپے تک ادا کرتے ہیں ا ور 42 کچھوؤں کی مجموعی قیمت 33 لاکھ سے زیادہ ہو سکتی ہے-

جبکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مختلف اقسام کے ایک کچھوے کی قیمت گیارہ سو ڈالر سے لے کر پندرہ سو ڈالر ہے مقامی طور پر کچھوے کی خرید و فروخت اور سمگل کرنے کے لیے رشوت تک کے مراحل ایک سو پچاس ڈالر سے لے کر ایک سو پچپن ڈالر میں طے ہوتے ہیں۔

لڑکی نے اس طرح اپنے بوائے فرینڈ کی بے وفائی پکڑی کہ خفیہ ایجنسیاں حیران رہ گئیں

انھوں نے بتایا کہ اس نسل کے کچھوؤں کا رنگ کالا ہوتا ہے اور جسامت بہت چھوٹی۔ اُن کے مطابق ان کچھوؤں کا سائز زیادہ سے زیادہ چار انچ اور کم سے کم ڈیڑھ انچ تک ہوتا ہے ہمارا خیال ہے کہ ان کو کچھ شوقین مزاج لوگ پالتو جانور کے طور پر رکھتے ہیں یہ شوق چین، یورپ اور امریکہ میں بہت زیادہ ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں کچھوے کی مجموعی طور پر 11 انواع پائی جاتی ہیں۔ جن میں آٹھ میٹھے یا تازہ پانی اور تین سمندری (نمکین پانی) میں پائی جاتی ہیں۔ میٹھے یا تازہ پانی کا کچھوا دریائے سندھ، پنجاب اس سے منسلک دریاؤں، ملحقہ ندی نالوں، چشموں، تالابوں میں پایا جاتا ہے۔

وائلڈ لائف سندھ کے اہلکار کے مطابق بلیک پونڈ دیگر کچھووں کی طرح سندھ اور پنجاب کے تازہ پانیوں میں پایا جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ عموماً جب بارشوں کے بعد دریاؤں یا نہروں میں پانی کم ہو جاتا ہے تو بننے والے چھوٹے تالابوں یا گڑھوں میں کچھوئے رہ جاتے ہیں، اسی لیے اس کا نام پونڈ اور رنگ کی وجہ سے بلیک پونڈ کہا جاتا ہے۔

دلہن کی سہیلی کرائے پر دستیاب ، انوکھی آن لائن سروس

اہلکار کا کہنا تھا کہ ان کچھوؤں کی سمگلنگ میں ملوث دو ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے گرفتار ملزمان غیر قانونی طور پر پکڑے گے کچھووں کو اپنی شناخت چھپا کر سوشل میڈیا پر فروخت کرنے کی کوشش کر رہے تھے جب ہمیں اس کی اطلاع ملی تو ہمارے سٹاف نے ان لوگوں کے ساتھ گاہگ بن کر رابطہ کیا اور ان سے نمونے دکھانے کا مطالبہ کیا جب وہ ہمیں ملے اور نمونے کے طور پر بلیک پونڈ دکھایا تو ٹیم نے ان کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا۔

سرکاری اور غیر سرکاری ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کچھوے کی غیر قانونی تجارت میں پاکستان کے علاوہ نیپال، ہانگ کانگ، انڈونیشیا، سنگاپور، جنوبی کوریا اور ویتنام سر فہرست ہیں ماہرین کے مطابق پینگولین کے بعد سے سے زیادہ غیر قانونی خرید و فروخت کچھوے کی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس کی تعداد میں ریکارڈ کمی پیدا ہوئی ہے۔

دنیا میں کچھوؤں کی بڑی مارکیٹ چین ہے یہ انتہائی منافع بخش کاروبار ہے اہلکار کا کہنا تھا کہ چند ماہ قبل کراچی میں چین کے کچھ لوگوں کی رہائش گاہ پر سے بھی بڑی تعداد میں کچھوے اور ان کے خول بر آمد ہوئے تھے چین میں کچھوا کا خول سوپ کے لیے جب گوشت کھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

پارک میں گھومنے آئی خاتون ہیرے کی مالک بن گئی

جبکہ چین میں کچھوے کو مقامی ادوایات کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں اس کے خول کو پاوڈر بنا کر جنسی طاقت کی دوا کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

چیف کنزویٹر وائلڈ لائف صوبہ سندھ کا کہنا ہے کہ ہماری ایک تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ پانی میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی ایک بڑی وجہ کچھوؤں کی کمی بھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کچھوے ماحولیاتی نظام میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، قدرت نے کچھوے کو آبی ماحولیاتی نظام کے خاکروب کا کردار سونپا ہے یہ اپنی خوراک مردہ اجسام، بیمار مچھلیوں و آبی جانور، انسانی صحت کے لیے خطرناک کیڑے مکوڑے اور جراثیم کھا کر حاصل کرتے ہیں اس طرح یہ پانی کے ذخائر کو آلودگی سے پاک رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

ترکی :11 ہزار سال پرانے تھری ڈی مجسمے دریافت

Leave a reply