نظام عدل تحریر : راجہ حشام صادق

0
51

ہر وہ شخص جسے کبھی انصاف نہیں ملا ان انصاف کے پہرے داروں سے۔ جدوجہد آزادی اور قیام پاکستان کے بعد ہی اس ملک کا نظام جاگیرداروں سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں آ گیا اور گزشتہ سات دہائیوں میں اس نظام کو کرپٹ ترین بنا دیا گیا

ہمارے ہاں عدالتوں کے باہر لگا وہ انصاف کا ترازو آج عدل کی نہیں بلکہ خریدو فروخت کی علامت بن چکا ہے ۔یہاں پر بیٹھنے والے لوگ قانون کے ساتھ ساتھ خود بھی اندھے ہو چکے ہیں۔ہزاروں ، لاکھوں کیس ایسے ہیں جو ایک ماہ میں ختم ہو سکتے لیکن کئی سال یہاں تک کہ نسلیں ختم ہو جاتیں ان کے فیصلے نہیں ہو پاتے۔اب اس کو نظام کی سستی سمجھیں یا پھر نااہل لوگوں کا اس منصب پر موجود ہونا سمجھا جائے ؟

یہ قانون اتنا اندھا ہو گیا ہے کہ قاضی کو اپنی ہی عدالت کے باہر جھوٹے گواہ خیریدے جاتے ہیں۔
قاضی کے پاس بیٹھ کر رشوت لینے والا قانون کو نظر کیوں نہیں آتا۔ جھوٹے گواہوں کو انصاف کی عدالت نہیں دیکھ سکتی ہر جرم عدالتوں کے دروازے کے سامنے ہو رہا ہے ۔ لیکن قانون کے ساتھ اس قانون اور انصاف کے پہرے دار بھی اندھے ہو چکے ہیں ۔کوئی اپنے ضمیر کا سودا کر چکا ہے تو کوئی بغیر میرٹ پر اس منصب پر براجمان ہے ۔یہاں انصاف ملتا نہیں انصاف بکتا ہے۔ امیروں اور جاگیرداروں کی لونڈیاں بنا ہوا ہے یہ انصاف مقدس ادارہ یہاں غریبوں کے لئے قید خانے ہیں اور طاقتور من پسند کے فیصلے لیتے ہیں ۔غریب اور کمزور انصاف کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں۔ ہمارے انصاف کے اداروں میں بیٹھا یہ مافیا سانحہ ماڈل ٹائون ہو یا سانحہ ساہیوال کسی حق سچ بولنے والے صحافی کا قتل ہو یا سندھ کی بیٹی ام رباب کے خاندان کا قتل ہمیشہ طاقتوروں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔

اور جب کوئی حق اور انصاف کے لئے آواز اٹھائے تو اسے بغاوت اور غداری کے کیس میں توہین عدالت لگا کر ہمیشہ کے لئے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ہمارے ملک کے جانے مانے صحافی مبشر لقمان کا نور مقدم کا کیس ہے ۔سچ کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اعلی عدلیہ کے معزز ججز اپنے کام میں کم دوسرے معاملات میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔

ہمارے ہاں ماضی کے چیف جسٹس صاحب نے انصاف کے لئے کچھ نہ کیا اپنے ادارے میں بہتری نہ کر سکے لیکن ان کو حکومتی معاملات میں کافی دلچسپی رہی۔ موجودہ معزز جج بھی انہی کے نقش قدم پر ہیں ۔انصاف کے نظام کو بہتر کرنے کی بجائے امیروں اور جاگیرداروں کے دلال بننے والے غریبوں کو کیسے انصاف دیں گے ؟ہو کیا رہا ہے حکومتی معاملات ہوں یا کسی اہم ادارے میں تعیناتی کا معاملہ ہو ہماری عدالتوں میں بیٹھے معزز ججز کو کافی دلچسپی ہوتی ہے۔

ہمارے ملک کا دوسرا بڑا مسلہ کرپشن ہے۔اب کرپشن کی وجہ سے سرکاری لوگوں کو فارغ کیا جائے تو ہماری عدالتیں وہاں بھی اپنی خدمات سرانجام دیتی ہیں۔اس سرکاری مجرم کو عدالتیں بحال کر دیتی ہیں اربوں کی کرپشن میں ملوث سیاسی مجرم، دہشتگرد اور قاتلوں کو ضمانت پر رہا کرنے والی عدالتیں بوکھے پیٹ کی خاطر دو روٹی چور کو سالوں قید خانے میں ڈال دیتی ہیں۔

وطن عزیز کو لوٹنے والوں کو ریلیف مل جاتا ہے۔ لیکن ایک بکری چور کو دس سال تک سزا مل جاتی ہے۔ وجہ وہ بیچارہ غریب جو ہے۔اس کے آگے بیچھے جو کوئی نہیں یاد رکھیں جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا خدا ہوتا ہے ۔ اور میرے رب کی عدالت میں انصاف بھی ہوتا ہے کل میدان مہشر اس غریب کا ہاتھ ہوگا اور انصاف کے ٹھیکیدارو آپ کا گریبان ہو گا۔
کچھ ایسا بھی ہوا ہے ہمارے اس عدالت میں سزائے موت کے فیصلے کے بعد پھانسی لگ جانے والے دو بھائی بے قصور قرار دیئے گئے۔ ایسے نظام سے اس نظام اور قانون کے رکھوالوں سے میں کل بھی باغی تھا میں آج بھی باغی ہوں۔
ہم ایسے قانون کو نہیں مانتے جس میں عام شہری کو انصاف نہ ملے اور طاقتور اور جاگیرداروں اس قانون کو پائوں کے نیچے روند کر نکل جائے۔

اللہ پاک ہم سب پر اپنا کرم اور فضل فرمائیں اور ہمارے اس عدل منصفوں کو ہدایت دیں آمین ثم آمین۔

@No1Hasham

Leave a reply