عوام کے ایشوز کیا ہیں؟ وہ کس کرب میں مبتلا ہیں؟ انہوں نے جینا ہے ،روزانہ روٹی کا انتظام کرنا ہے، علاج اور بچوں کو تعلیم دلوانی ہے ۔زندگی کی ضروریات کے حصول کے لئے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ عوام کو نہ تو آئین اور نہ ہی قانون کی پیچیدگیوں سے دلچسپی ہے نہ سوشل میڈیا کی نورا کشتیوں ،کردار کشیوں سے کوئی غرض ہے ۔ان کے روزانہ کے بنیادی مسائل ہر روز ان کی چوکھٹ پر دستک دیتے ہیں سیاسی جماعتوں کی لڑائیاں اور الزام تراشیاں کتنی ہی بڑھتی چلی جائیں عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کیا کمال کا اتفاق ہوتا ہے۔
آمدہ قومی انتخابات کے لئے سیاسی نورا کشتیاں جاری ہیں آج کی مہنگائی کا ملبہ کسی ایک سیاسی جماعت پر نہیں ڈالا جا سکتا اس کے ذمہ دار سابقہ حکومت سے ہٹا کر ایک دوسرے کی آڈیو ، ویڈیو پر تبصروں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور آج کی اس سیاست میں اداروں معزز ججز صاحبان کو بھی نہیں بخشا جا رہا ۔حیرت ہے ملک و قوم کو مسائل کے گرداب میں پہنچا کر آج ایک دوسرے پر گھٹیا اور غلیظ زبان سمیت آڈیو اور ویڈیو کے گندے کھیل شروع کر دیئے گئے ہیں۔ ان حرکات سے پاکستان بطور ریاست اور اس ریاست کے مستقبل نوجوانوں کا کیا ہوگا؟ اج کے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں جس گھوڑے پر سوار ہیں ان کی ان حرکتوں سے کسی بھی وقت گر سکتے ہیں۔
فیصلہ ساز اداروں کو وطن عزیز اور عوام کی خاطرہ موجودہ شور شرابے معاشی اور ایک مقروض ملک کی خاطر نواز شریف، عمران خان، پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو اور دیگر سیاسی جماعتوں کو اس ملک و قوم کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے مذاکرات کروانے کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ ضد، انا اور ہٹ دھرمی کو دفن کرنا ہوگا ملک کے بہتر مستقبل اور ملک کے وسائل پر بھرپور توجہ دینا ہوگی اس ملک و قوم کی نوازشریف ، عمران خان اور بلاول بھٹو سمیت دوسری جماعتوں کو تعمیر وطن میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ نوازشریف کسی ولی یا فرشتے کا نام نہیں اور نہ ہی عمران خان کسی ولی یا فرشتے کا نام ہے اور نہ دیگر خداراہ اس ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کے لئے فیصلہ ساز ادارے اپنا کردار ادا کریں اور سیاسی جماعتیں بھی اس ملک پر رحم کریں سیاسی عدم استحکام، معاشی گراوٹ سماجی انتشار کیا اس ملک کا مقدر ہیں؟