نئی سرحدیں ، نئےملک، نئی حکومتیں ، مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنے والا ہے کون کون سا ملک ٹوٹے گا، مبشر لقمان کی نئی ویڈیو

باغی ٹی وی : سینئر اینکر پرسن مبشر لقمان نے اپنی نئی یو ٹیوب چینل پر کہا ہے کہ برطانیہ اور فرانس کے مشرقِ وسطیٰ کی سرحدوں کے تعین کے تقریباً ایک صدی بعد اس خطے میں ہونے والے واقعات اس کا نقشہ ایک مرتبہ پھر بدل رہے ہیں۔

۔ وہ ممالک جو لندن اور پیرس کے ڈیزائن کے مطابق بنائے گئے تھے اب جہادیوں، قوم پرستوں، باغیوں اور جنگجو سرداروں کے علاقوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ شام ، لبیا، یمن اور عراق تباہ وبرباد ہوچکے ہیں ۔ تو اس وقت مشرق وسطی میں شعیہ ، سنی ، کرد ، ترکی ، ایرانی ، سعودی اور اسرائیل کی مکس اچار پلیٹ نئے حادثات کو جنم دے سکتی ہیں ایک جانب یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ ٹرمپ کے بعد نئی امریکی انتظامیہ پھر سے مشرق وسطی میں
status qu کو بحال کرنا چاہ رہی ہے ۔ اس کا ثبوت دیکھنا ہے تو اسرائیل کے آج کے اخبارات کو گھنگال لیں ۔ آپکو پتہ چل جائے گا ۔ ایک مثال آپکو دیے دیتا ہوں۔ اسرائیل کے چوٹی کے اخبار
Haaretz کی ہیڈ لائن ہے کہ ۔۔۔۔ As Biden Takes Office, U.S. Embassy in Israel Briefly Adds ‘West Bank and Gaza’ to Its Twitter
یعنی بائیڈن نے آتے ساتھ ہی مشرق وسطی اور خصوصاً Abraham Accord
کے حوالے سے بتا دیا ہے کہ وہ اس پر نہیں چلیں گے اور
مشرق وسطی میں status quo
کو بحال رکھیں گے ۔ اس سے اب تک تو سب سے زیادہ متاثر سعودی عرب اور اسرائیل ہی دیکھائی دیتے ہیں ۔ یہاں تک تو بات بہت آسان دیکھائی دیتی ہے ۔ مگر چیزیں اتنی بھی آسان نہیں ہیں ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں موساد اور اسرائیل جس نے اتنی تگ و دو اور پلاننگ کے بعد ایک statusحاصل کر لیا تھا وہ اس سے پیچھے ہٹ جائیں گے ۔ میرانہیں خیال ۔ ساتھ ہی محمد بن سلمان اور مشرق وسطی کے دیگر
players بھی اپنا اپنا پورا زور لگائیں گے ۔ کہ نئی امریکی انتظامیہ مجبور ہو جائے ۔ یا خطے کے حالات ایسے پیدا کر دیے جائیں ۔ یا کوئی نئی جنگ شروع کروادی جائے ۔

مبشر لقمان کا کہانا تھا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب وقتی طور پر امریکہ سے منہ موڑ لیں اور کسی دوسری جانب دیکھنا شروع کر دیں جہاں انکو تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہو ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ نئی امریکہ انتظامیہ اسرائیلی موقف کو ماننے پر مجبور ہو جائے ۔ کیونکہ اسرائیلی لابی امریکہ میں جتنی مضبوط ہے اس سے ایک جہاں واقف ہے ۔

مبشر لقمان کا کہانا تھا کہ اوپر بتائے جس بھی مرضی آپشن کو مان لیں ۔ ہر آپشن میں آپکو قتل وغارت ، خون خرابہ ، جنگ وجدل اور مشرق وسطی کے نئے بنتے بگڑتے نقشے دیکھائی دیں گے ۔ دنیا تو واضع طور پر دو بلاکوں میں بدل چکی ہے ۔ اور مشرق وسطی کی کشیدگی اب پھر انہی خدشات کو جنم دے رہی ہے۔ سب سے بڑا جو سوال ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ

۔ کیا نئے پلیئرز مشرق وسطی کا نقشہ بدلنے جا رہے ہیں؟کیا اس علاقے میں اب نئی سرحدیں قائم ہوں گی نئے لکیریں کھینچی جائیں گی؟ کیا حلیفوں اور حریفوں کے حوالے سے نئی پالیسی کا مقصد صرف اور صرف اسرائیل کو محفوظ بنانا اور اس کی طاقت کو بڑھانا ہوگا۔

۔ آپ دیکھیں عراق ، لیبیا اور یمن میں نسلی، قبائلی اور مذہبی رہنماؤں کا اپنے اپنے علاقوں پر کنٹرول ہے۔ یعنی ایک یونٹ کی طرح یہ دونوں ممالک اکٹھے نہیں ہیں ۔ کیونکہ جیسے جیسے قومی ریاستیں ٹکڑے ٹکڑے ہو رہی ہیں ان میں موجود بڑے طاقتور دارالحکومت غیر اہم ہوتے جا رہے ہیں۔ دنیا چاہے مشرقِ وسطیٰ کے ان ممالک میں اپنے سفارتخانے رکھے لیکن بغداد، دمشق، تبروک اور صنعا کی حکومتوں کا اپنے ممالک کے بیشتر حصوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کچھ مرکزی حکومتیں اب جنگجوؤں یا غیر ریاستی قوتوں پر انحصار کر رہی ہیں کہ وہ ان کا دفاع کریں۔

مبشر لقمان کا کہانا تھا کہ یہاں تک کہ مشرقِ وسطیٰ کے سب سے قیمتی وسائل کا ذریعہ یعنی کہ اس کا تیل بھی حکومت کے کنٹرول سے آہستہ آہستہ نکل رہا ہے۔اس وقت مشرق وسطی میں ایک ایسا معاشی نیٹ ورک بھی بن چکا ہے جو مذہبی اور نظریاتی سرحدوں سے پار ہے جہاں آپ کو لوگ معدنی تیل، ڈیزل اور گیسولین بیچتے اور خریدتے ملتے ہیں۔ اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق تجزیہ کار اسے عرب قوم پرستی کی ناکامی، جمہوری ترقی کی کمی، صیہونیت، مغرب کی سازشیں اور
radical islamیعنی جس کو جو سوٹ کرتا ہے اس پر ڈال کر اپنا الو سیدھا کر لیتا ہے ۔

مبشر لقمان کا کہانا تھا کہ پر جو کھرا سچ ہے وہ یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے معاشروں کو جو طاقت سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے وہ فرقہ واریت ہے۔ پورے مشرق وسطی میں شیعہ اور سنی ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں اور پرتشدد لڑائی لڑ رہے ہیں۔خطے کی دو بڑی طاقتیں سعودی عرب اور ایران اپنے گماشتوں کے ذریعے اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں۔

مبشر لقمان کا کہانا تھا کہ ماضی میں عالمی طاقتیں مشرقِ وسطیٰ کو یکجا رکھنے میں کامیاب رہتی تھیں لیکن اب بالکل نظر نہیں آتا کہ واشنگٹن یا ماسکو یا بیجنگ کے پاس طاقت یا منشا ہے کہ وہ شام، عراق، لیبیا یا یمن کو متحد کر سکیں ۔ اور ویسے بھی اب تو ان ممالک کے حوالے سے سوالات اور خدشات پرانے ہو چکے ہیں ۔ اب تو لوگ نیا سوال یہ کرنا شروع ہو چکے ہیں کہ کیا مصر، اردن، بحرین ، سعودی عرب اور ایران قائم رہ سکیں گے۔

ان کا کہانا تھا کہ اسرائیل ، امریکہ اور مغرب کی سازشیں اپنی جگہ مگر اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مشرق وسطی کو بچانے کے فیصلے کی چابی ایران، ترکی اور سعودی عرب کی جیب میں ہے۔ میرے مطابق ہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ آج ہمیشہ ماضی کا حصہ بنتا چلا آیا ہے۔ یہ قانون فطرت ہے۔ ہماری پچھلی تین نسلیں تاریخ پڑھتی چلی آئی ہیں اب وہ خود تاریخ کا حصہ ہیں ۔

ان کامزید کہانا تھا کہ اس لیے مسلمانوں کو آج سوچنا پڑے گا کہ ایک بار پھر مشرق وسطی کا نقشہ تبدیل کرنے کا وقت سر پر آن پہنچا ہے۔ اس میں سبق حاصل کرنے والی بات یہ ہے کہ اس بار بھی مسلمان
collateral damage
ہیں یا پھر اس گریٹ گیم کا حصہ ۔۔۔

Shares: