نگراں وزیراعظم تقرری، روز اول سے ہمیں محتاط رہنا چاہیے تھا. خواجہ آصف

0
37
Khawaja Asif

سابق وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ نگراں وزیراعظم کی تقرری کا عمل جب شروع ہوا تو روز اول سے ہمیں محتاط رہنا چاہیے تھا کہ کوئی ایسا شخص وزیراعظم نہ بن جائے کہ جس سے انتخابات پر سوالیہ نشان لگ جائے اور الزامات لگیں کہ ان کا کسی پارٹی سے تعلق ہے۔ احتیاط کی گئی کہ پی ڈی ایم سے جڑی کسی پارٹی پر یہ الزام نہ لگے۔ جبکہ نجی ٹی وی میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ موجودہ وزیراعظم جو ہیں، میرا نہیں خیال کہ انہوں نے وابستگی کا ایسا کوئی بوجھ اٹھایا ہوا ہے، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سے ان کا تعلق ضرور ہے لیکن اس پارٹی کا اتنا زور نہیں کہ وہ پورے پاکستان یا انتخابات پر اثر انداز ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ انوار الحق کاکڑ کی تقرری کا 48 گھنٹے پہلے سے ہی تمام پارٹیوں کو معلوم تھا اور اس سلسلے میں مشاورت بھی ہوگئی تھی۔ ان کی تعیناتی بلوچستان کے عوام پر اچھا اثر ڈالے گی۔ چاہے وہ نگراں ہی صحیح لیکن تاثر جائے گا کہ صوبے پر اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے کہ ’آپ بھی قومی دھارے کا حصہ ہیں ایک اہم حصہ ہیں اور برابر کے حصہ دار ہیں‘۔

خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ کہ اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں ہونے والی میٹنگ میں ڈاکٹر مالک سمیت متعدد ناموں پر بحث ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیبرپختونخوا اور سندھ سے ایک ایک نام اور جنوبی پنجاب سے دو نام فائنل کیے گئے تھے۔ خواجہ آصف نے اس بات کی بھی تردید کی کہ انوارالحق کاکڑ اسٹیبلشمنٹ کی پسند ہیں۔ تاہم، انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کو دیگر جماعتوں کے تجویز کردہ بہت سے ناموں پر شدید تحفظات تھے۔

مزید یہ بھی پڑھیں؛
نگران وزیراعظم سے متحدہ عرب امارات کے سفیرکی ملاقات
جڑانوالہ میں جو کچھ ہوا، افسوسناک،مجرموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔شہباز شریف
گھریلوملازمہ رضوانہ کی پہلی پلاسٹک سرجری
جج نے جھگڑے کے بعد بیوی کو قتل کردیا
سابق گورنر اسٹیٹ بینک نگراں وزیر خزانہ مقرر
نواز شریف کی پاکستان واپسی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا آنا ہمارے لیے فائدہ مند ہوگا، ان کی آمد سے عوامی نظریہ ہمارے لیے بہتر ہوگا، میرے حساب سے الیکشن کا اعلان ہونے کے بعد میاں صاحب کو آنا چاہیے۔ نو مئی سے متعلق مقدمات میں جیلوں میں قید خواتین سے سلوک کے سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ نو مئی کے حوالے سے جو خواتین قید ہیں انہوں نے بغاوت میں حصہ لیا تھا اور سیاست میں جب ہم آجاتے ہیں تو پھر جینڈر ایکوالٹی (صنفی برابری) ہونی چاہیے جینڈر پریفرنس (صنفی ترجیح) نہیں ہونی چاہیے۔

Leave a reply