نوجوان نسل کے مسائل
ساحل توصیف، محمد پورہ، کولگام، کشمیر
نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اور مستقبل کی تمام تر ذمہ داریاں انہی نوجوانوں کے کندھوں پر ہوتی ہیں ۔اگر یہی نوجوان راہ راست سے بھٹک جائیں تو قوم کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے اور دوسری قومیں اس پر ٹوٹ پڑتی ہیں ۔
ہمارے نوجوان آج کل ہر قسم کی بُرایئوں میں ملوث پائے جاتے ہیں مثلاً فحاشیت’ جُوا بازی’ منشیات وغیرہ ہمارے نوجوانوں میں ایسے بہت سارے مسائل جنم لے چکے ہیں جن کا تدراک کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بحثیت قوم ہم پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اِن مسائل کا بروقت تدراک کریں ۔
انسانی زندگی کے تین ادوار ہیں۔ بچپن۔ جوانی۔اور بڑھاپا۔
لیکن ان تین ادواروں میں انسانی زندگی کا جو کٹھن دور ہوتا ہے وہ جوانی کا دور ہے ۔ جوانی میں قدم رکھتے ہی اس کے اندر عزم’ ہمت اور ولولے انگڑائیاں لینے لگتے ہیں اور یہی سے اس کی بلوغت کا دور بھی شروع ہوتا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہماری وادی میں لوگ اپنے بچوں کی شادیاں تیس(30) پنتیس(35) سال کی عمر میں کرتے ہیں یہ ہمارے سماج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔کبھی ماں بات ٹال دیتی ہے اس لئے کہ ہمارا بچہ ابھی پڑھ رہا ہے روزگار ملے گا تو اچھی طرح سے شادی کریں گے اور کبھی باپ ۔۔۔ مگر دیر سے شادی کرنے سے بہت سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں اس کا نفسیات پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے خواہشات کا بڑھتے جانا۔ یا ان کا پورا نہ ہونا بڑا تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔اور جب اُن کا دباؤ بڑھ جاتا ہے تو بہت سی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔جنہیں اعصابی امراض یعنی (HYSTERIA) کہتے ہیں
ان جانے خوف۔ گھبراہٹ۔وحشت۔مایوسیی ، چڑچڑاپن۔تشویش۔وحشتناک خواب وغیرہ وغیرہ اور ان کی وجہ سے ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے۔نیند کم آتی ہے رنگ زرد ہو جاتا ہے۔گیس اور بدہضمی سےکھانا ہضم نہیں ہوتا ہے۔نظر کمزور ہوتی ہے پڑھنے لکھنے کو دل نہیں کرتا ہے اور اس طرح آہستہ آہستہ صحت خراب رہنے لگتی ہے اور یہی سے انسان چور دروازے ڈھونڈنا شُروع کر دیتا ہے اور سماج میں بھی اس کا بہت بُرا اثر پڑتا ہے اور بُرائیاں جنم لیتی ہیں۔ اس سب کے ذمہ دار وہ والدین ہیں جو اپنے بچوں کی نفسیات کو پس پُشت ڈال دیتے ہیں اُن کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور نتیجتاً بہت سی بُرائیوں کو دعوت دیتے ہیں۔میرا ماننا ہے کہ یہی سے سب بُرائیاں جنم لیتی ہیں۔ نفسانی خواہش کا پورا نہ ہونا انسان کو منشیات کی طرف لے جاتا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ اب نشے میں ہی وہ سکون حاصل کرسکتا ہے۔ہمارے سماج میں اکثر جوان ان جرائم میں ملوث ہو چُکے ہیں کوئی نشے کا عادی ہے تو کوئی فحاشی کا اور یہ جرائم روز بہ روز بڑھتے ہی جاتے ہیں ۔
دوسری اہم بات جو جوان منشیات کے عادی ہو چکے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ سب سے زیادہ چوریوں میں ملوث پائے جاتے ہیں نشہ نہ ملنے کی صورت میں وہ گھر کی کوئی بھی چیز بیچ کر یا دوسروں کی چوری کرکے اپنے نشے کو جلا بخشتے ہیں۔
چونکہ ہماری وادی میں نوجوانوں کے مسائل بہت زیادہ ہیں ان میں بے روزگارنوجوانوں کی تعدا میں اضافہ ہونا۔ روز روز ہڑتالیں ۔خوف و ہراس ۔ بہت سے ایسے مسائل ہیں جس نے یہاں کے نوجوان پر بہت بُرا اثر ڈالا ہے۔غرض کہ ہر طرح سے ہمارے جوانوں کو ، ہمارے سرمائے کو ایک منظم طریقے سے ختم کیا جارہا ۔ اب بحثیت قوم ہم پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جو ہم سے بن سکے وہ ہم کریں، اگر ہم زیادہ نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنے حصے کی کوشش ضرور کریں پھر فیصلہ اللہ پہ چھوڑدیں ، اللہ کرے کہ ہمارے نوجوان جن کے ہاتھوں میں ہمارا مستقبل ہے وہ سنور جائیں اور ترقی کی منازل طے کرتے چلیں ، میری اپنی قوم سے یہی گُزارش ہے کہ اپنے مستقبل کو تباہ ہونے سے بچائیں اور مستقبل کے معماروں کو راہ راست پر لانے کی بھرپور کوشش کریں ۔اللہ ہمارے مستقبل کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔
جوانوں کو میری آہِ سَحر دے
پھر ان بچوں کو بال وپَر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نورِ بصیرت عام کردے
Shares: