سندھ ہائی کورٹ میں پسند کی شادی کے حوالے سے درخواست کے معاملہ پر اہم پیش رفت ہوئی ہے، عدالت نے وقتی طور پر لڑکی کو شیلٹرہوم بھیج دیا۔

لومیرج کرنے والی آرزو فاطمہ نے شیلٹر ہوم سے والدین کے ساتھ جانے کی درخواست دائر کی ہے، عدالتی حکم پر شیلٹر ہوم انتظامیہ نے آرزو فاطمہ کو پیش کردیا۔

جسٹس کے کے آغا نے کہا کہ عدالت نے بچی کو کم عمری کی وجہ سے شیلٹر ہوم بھیجنے کا حکم دیا تھا، ہم نے بچی کی اچھی تعلیم وتربیت کا بھی حکم دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب لڑکی خود اپنے والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہے، کیا آپ نے خود درخواست دائر کی؟ جس پر آرزو فاطمہ نے کہا کہ جی میں نے ہی درخواست دائرکی ہے۔

عدالت نے آرزو فاطمہ سے استفسار کیاس کہ کیا آپ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہیں؟ آرزو فاطمہ نے کہا کہ جی ہاں میں مسلمان ہوں اور میں نے اپنی مرضی سے دین اسلام قبول کیا ہے۔

جسٹس کے کےآغا کا کہنا تھا کہ سندھ میں کم عمری کی شادی جرم ہے اور اس حوالے سے عدالت اپنا فیصلہ دے چکی ہے، لڑکی کے والدین نے عدالت میں بیان دیا کہ بچی مسلم رہے یا عیسائی ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔

عدالت نے والدین سے استفسار کیا کہ کای آپ بچی پر کسیہ قسم کا تشدد ڈر یا خوف تو نہیں پیدا کریں گے؟ والدین نے کہا کہ بچی پر کسی قسم کا تشدد نہیں کریں گے۔

وکیل نے کہا کہ آرزو کے شوہر نے بیوی کی حوالگی کے لیے درخواست دائر کر رکھی ہے، عدالت نے آرزو فاطمہ کی والدین کے پاس واپس جانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ درخواست پرآج ہی فیصلہ سنایا جائے گا، جب تک فیصلہ نہیں ہوجاتا آرزو کو کسی سے بات نہ کرنے دی جائے، بعدازاں عدالت نے آرزو کو فی الوقت دوبارہ شیلٹرہوم بھیجنے کا حکم دے دیا۔

Shares: