ن ش م اور لیگی ووٹر تحریر : فیصل خالد

4 سال قبل
تحریر کَردَہ

پینتیس برس تک اقتدار کی باریاں سمیٹنے والی ن لیگی قیادت شریف خاندان کو ملک کی ترقی کیلئے ابھی بھی بلا شرکت غیرے اقتدار ملنے کے خواب آتے ہیں۔ تین بار کے وزیراعظم نواز شریف اور پانچ بار کے وزیراعلی پنجاب شہباز شریف حصول اقتدار کی اس کشمکش میں بظاہر بوکھلائے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ برسوں اقتدار میں رہنے والے برادران اپنی اولاد کی خواہشوں کے آگے بھی مجبور نظر آرہے ہیں۔ اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ن لیگ میں شریکے کی کھچڑی پک رہی ہے۔برادران اپنے تئیں اقتدار اپنے سیاسی جانشینوں کو سونپنا چاہتے ہیں۔ اور اسوقت دونوں بھائیوں کی اولاد میں ایک کی بیٹی اور دوسرے کا بیٹا عملی سیاست میں ہے۔ عمومی رائے ہے کہ نواز شریف کو اپنی بیٹی میں ملک کی دوسری خاتون وزیراعظم دکھائی دیتی ہے جبکہ شہباز شریف کا بیٹا خود نواز شریف بننا چاہتا ہے۔ پارٹی کے اندر چل رہے اس کھیل کے بعد برادران کے
مفاہمت اور مزاحمت کے سیاسی بیانیے ہیں۔ غیر سنجیدہ لوگوں کے نزدیک یہ معاملہ ن لیگ کے بٹوارے پر منتج ہوگا جبکہ سنجیدہ حلقے اسے بھی سیاسی چالبازیوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ بات کرتے ہیں برادر اکبر
میاں نواز شریف کی تو اقتدار سے باہر آنے کے بعد وطن عزیز میں جتنا عرصہ خاموش رہے۔ خاموش رہ کر بیماریوں کا گھر دکھائی دینے لگے۔ ان کے چاہنے والوں کی پریشانی روز بروز بڑھنے لگی کہ ان کے مسیحا کو آخر کیا غم لاحق ہوگیا ہے۔ خدانخواستہ یہ سایہ ان کے سروں سے اٹھ گیا تو ملک کو ، اس قوم کو کون سنبھالا دے گا۔
ٹی وی سکرینوں پر دکھائے جانے والے میاں جی کی حالت قابل رحم نظر آنے لگی ان کے پلیٹلیٹس کو لیکر میڈیا نے دن رات میاں نواز شریف کی پتلی حالت پر حکومت وقت کو لتاڑنا شروع کردیا۔ ڈاکٹر نے میاں صاحب کی سانسیں گنوانا شروع کردیں۔نوبت یہاں تک آگئی کہ بالآخر وطن واپسی کا 50روپے والا بیان حلفی اسٹامپ پیپر دیکر میاں صاحب اپنی لندن والی آرامگاہ کو سدھار گئے۔ ملکی سیاست میں میاں نواز شریف کی بیٹی مریم بی بی کی دبنگ انٹری ہوئی۔ بیماری کی وجہ سے جو الفاظ ادا کرنے کیلئے والد کی زبان لڑکھڑانے لگی تھی وہ بیٹی مریم زوجہ صفدر کی زبان سے ادا ہونے لگے سیاسی جلسے جلوسوں میں ملکی اداروں اور من پسند شخصیات کے درمیان واضح لکیر کھینچ دی گئی۔ ادھر پر فضا مقام لندن کی آب و ہوا کے اثر سے میاں نواز شریف دھیرے درمے سخنے صحت یاب ہوتے گئے تو ان کے غصے کا پارہ بھی بتدریج بلند ہونا شروع ہوگیا۔ پاکستان میں لاغر سا نظر آنے والا شیر ٹویٹر کے علاوہ ویڈیو پیغامات کے ذریعے گرجنا برسنا شروع ہوگیا۔ نونہالان وطن اپنے چاہنے والوں کو اداروں سے نفرت ،حقارت، مر مٹنے اور ڈٹ جانے کی تبلیغ کی جانے لگی۔ بیرون ملک اپنی اولاد کیساتھ بیٹھا ہوا شیر مزاحمت کے بیانیے سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو للکارتا اور اسی سے اپنے حامیوں کو جوش دلواتا ہے جبکہ ن لیگ کا مرد آہن جونیئر شریف مفاہمت کے بیانیے سے ڈنگ ٹپاؤ کام نکلواؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہو گیا۔اعلی قیادت کے اس سارے کھیل میں آزاد کشمیر کے انتخابات بھی ہوگئے۔ برسر اقتدار جماعت واضح سیٹیں حاصل کر کے کامیاب ٹھہری۔ مگر مفاہمت اور مزاحمت کا تماشہ بدستور لگا ہوا ہے۔
برادران کے اس سارے سیاسی کھیل تماشہ میں ان کے دیرینہ رفیق اور حامی کچھ ڈانواں ڈول دکھائی دے رہے ہیں جنہیں ہر نئے دن نئی نئی وضاحتیں دینا پڑتی ہیں۔ جوشیلے حامیوں کا حال تو پتلا ہوا جاتا ہے کہ وہ کس چکر میں بلکہ گھن چکر میں پھنس گئے ہیں بیشتر کو تو حلقہ احباب میں منہ چھپانے کیلئے بھی ماسک کی ضرورت درپیش آرہی ہے۔ ن لیگ کے حامی مزاحمت والا بیانیہ لیکر چلتے ہیں تو خود کو شیر گردانتے ہیں دوسری جانب جب مفاہمت کے بیانیے کی باری آتی ہے تو شیر بیمار ہوکر آئیں بائیں شائیں کرنے لگ جاتا ہے۔ مریم بی بی کی مزاحمتی راگنیاں بھی چچا کی مفاہمتی بانسریا میں دبتی جارہی ہیں۔ ن کے ووٹر اور سپورٹر ایسے حالات میں خود پریشان ہیں کہ وہ اپنا سا منہ لے کے آخر کہاں جائیں؟؟؟ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ان کے حامی بھی ن میں سے کبھی ش تو کبھی میم بلکہ میم میخ نکالنے کا عمل کرنے لگتے ہیں۔اور ان ووٹروں کی حالت زار دیکھ کر اب یہی اندازہ ہوتا ہے۔
خدا ہی ملا نہ وصال صنم
ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔
‎Twitter handle
@_FaysalKhalid

Latest from بلاگ