اسلام آباد(محمداویس)بیرون ملک قید پاکستانیوں کی رہائی میں کیا رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں:سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں‌ تہلکہ خیزانکشافات ،اطلاعات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پارپاکستانیز میں انکشاف ہواہے کہ ماضی میں بیرون ملک سے قیدی پاکستان لے کران کورہاکردینے کی وجہ سے مزید ممالک قیدیوں کے تبادلے کے معائدے نہیں کررہے ہیں ،

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پارپاکستانیز میں انکشاف ہواہے کہ بیرون ملک 15 ہزار پاکستانی جیلوں میں قید ہیں سب سے زیادہ سعودی عرب میں7ہزار پاکستانی قید ہیں ،سعودی عرب میں 58فیصد پاکستانی منشا ت کے جرم میں گرفتار ہیں ،حکومتی پالیسی کے تحت بیرون ملک منشیات کے کیسوں میں قیدافراد کوکوئی ریلیف فراہم نہیں کیاجاتا کیوں کہ یہ ملک کی بدنامی کاباعث بنتے ہیں ،روزگار کے لیے پچھلے سال 2لاکھ 24ہزار لوگ باہر گئے۔

ارکان کمیٹی کی طرف سے ائیرپورٹ پر اورسیزپاکستانیوں کوشکایت کے لیے دیئے گئے نمبرپر بارہاکال کرنے کے باوجود نہ اٹھانے پر پی او ایف حکام کوشرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پارپاکستانیز اور انسانی وسائل کی ترقی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر منظور احمد کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا ۔ اجلاس میں سینیٹرز عرفان الحق صدیقی، خالدہ عطیب ، لیاقت خان تراکئی ، محمد اسد علی خان جونیجو، نصیب اللہ بازئی ، شہادت عوان ، شاہین خالد بٹ اور ذیشان خانزادہ کے علاوہ سیکرٹری سمندر پار پاکستانی عشرت علی، ایم ڈی او پی ایم ڈاکٹر عامر شیخ، جے ایس وزارت سمندر پار پاکستانی اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اجلاس میں وزارت سمندر پارپاکستانیز اور انسانی وسائل کی ترقی اور اس کے ماتحت اداروں کے کام کے طریقہ کار ، کردار ، کام کی نوعیت اور اداروں کی مجموعی کارکردگی ، بجٹ اور درپیش مسائل کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر منظور احمد نے کہا کہ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں جو اپنی زندگی کا اہم حصہ بیرون ممالک محنت کرکے ملک کے لئے اربوں روپے کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں ۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی میں سمندر پار پاکستانیوں کا کلیدی کردار ہے۔ متعلقہ اداروں کے ساتھ ملکر ایسی حکمت عملی اور طریقہ کار اختیار کیا جائے گا جس کے تحت بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے مسائل کو نا صرف حل کیا جائے گا بلکہ اُن کے ریلیف کےلئے بھی موثر اقدامات اٹھائے جائیں گے اور اُن کے پاکستان میں مقیم خاندانوں کےلئے بھی آسانیاں پیدا کی جائیں گی اور اُن کے معاملات کو بہتر بنایا جائے گا تا کہ بیرون ممالک مقیم پاکستانی بغیر پریشانی کے پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔

کمیٹی کو سیکر ٹری سمندر پار پاکستانی عشرت علی نے تفصیلات سے آگا ہ کرتے ہوئے بتایا کہ 18ویں ترمیم کے بعد وزارت میں بڑی تبدیلیاں ہوئی ہیں بین الاقوامی قوانین اور معاہدات پر صوبوں کے ساتھ مشاورت کر کے عملدرآمد یقینی بنانے کےلئے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اور وہ ادارے جو پاکستانیوں کو بیرون ممالک بھجواتے ہیں انہیں لیبر قوانین کے تحت عملدرآمد بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ تقریباً 78لاکھ پاکستانی بیرون ممالک قیام پذیر ہیں جن میں سے 80فیصد عام مزدور ہیں ہنر مند نہ ہونے کی وجہ سے اُن کی تنخواہیں بھی کم ہیں اگر انہیں متعلقہ شعبوں میں تربیت دے کر ہنر مند بنایا جائے تو زر مبادلہ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے ۔

بیرون ممالک سے بھی ہنر مند افراد کی طلب ہے بہتری کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سمندر پار پاکستانیوں کے وہاں اور پاکستان میں مسائل ہیں۔ جنہیں حل کرنے کےلئے صوبوں اور ضلعی سطح پر بھی مشاورت اور اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔جو لوگ باہر کام کرتے ہیں ان کو پاکستان میں لوٹا جاتاہے گوادر کے نام پر بہت زیادہ لوگوں کو لوٹا گیا ہے جعلی سوسائٹی کے نام پر اور ان کی زمینوں پر قبضہ ہوتاہے ۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران تقریباً سوا دو لاکھ افراد بیرون ممالک روزگار کےلئے گئے جس پر اراکین کمیٹی نے ہنر مند اوفراد کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی کو یہ بھی آگاہ کیا جائے کہ صوبوں سے کتنے افراد کو ہنرمند بنایا گیا ہے چاروں صوبوں کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارہ نیو ٹیک کے ذریعے ہنر مندی کی تربیت فراہم کرتا ہے جس کے فنڈ حکومت دیتی ہے البتہ نیو ٹیک کے پاکستان کوئی دفتر بھی نہیں ہے۔ نیشنل انڈسٹریل ریلیشز کمیشن کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس ادارے کا سربراہ چیئرمین ہوتا ہے ۔ کمیشن کے نو ممبران ہیں جن میں سے پانچ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں ۔ قائمہ کمیٹی نے کمیشن کے ممبران کی جلد سے جلد تقرری کی ہدایت کر دی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کمیشن کے ممبران نا مکمل ہونے کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے تقریباً 8178کیسز التوا کا شکار ہیں۔

قائمہ کمیٹی کو وزارت کے تاریخی پس منظر اور فنکشنز بارے تفصیلی آگاہ کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت کے آفیسرز کیلئے منظور شدہ آسامیوں کی تعداد 81ہے جن میں سے 35خالی ہیں جبکہ دیگر سٹاف کی تعداد 232ہے جن میں سے 31خالی ہیں۔ قائمہ کمیٹی کو وزارت کے ماتحت اداروں جن میں بیورو آف ایمگریشن اینڈ اورسیز ایمپلامنٹ ، این آئی آر سی ، ڈائریکٹر یٹ آف ورکز ایجوکیشن ، اورسیز پاکستانی فائڈیشن ، ورکز ویلفیئر فنڈ اور ایمپلائز اولڈ ایج بینفٹس کے کام، بجٹ اور کارکردگی بارے بھی تفصیلی آگاہ کیا گیا۔سینیٹر شہادت اعوان نے نشاہدہی کی کہ ائیرپورٹ پر نمبر دے دیئے جاتے ہیں مگروہ کوئی اٹھاتا نہیں ہے یا بندہوتے ہیں جس پر او پی ایف کے حکام کو اس کو ٹھیک کرنے کاکہامگر او پی ایف حکام نے کہاکہ نمبر چل رہے ہیں اور معلومات وشکایات درج کی جاتی ہیں اور انہوں نے کمیٹی کوکہاکہ سب کے سامنے کال کی جائے مگر جب کالیں کی گئیں تو کسی نے کال نہیں اٹھائی جس پر ان کوشرمندگی کاسامناکرناپڑا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں مختلف ممالک میں قید پاکستانیوں کے معاملات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ تقریباً 15ہزار پاکستانی مختلف ممالک کی جیلوں میں قید ہیں ۔سینیٹر نصیب اللہ بازئی نے کہا کہ بے شمار قیدی معمولی جرائم میں جیلوں میں قید ہیں وزارت اُن کی رہائی کےلئے اقدامات اٹھائے ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سری لنکا اور سعودی عرب کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا جلد معاہدہ طے پا جائے گا البتہ وہ قیدی منشیات کے کیس میں قید ہیں اُن کو اسی ملک کے قانون کے مطابق ڈیل کیا جاتا ہے۔کمیٹی نے ہدایت کی کہ وہ قیدی جنکے جرائم کم نوعیت کے ہیں اُن کی رہائی کےلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پارپاکستانیز میں انکشاف ہواہے کہ 15ہزار پاکستانی بیرون ملک جیلوں میں قید ہیں ۔اوپی ایف کے حکا م نے کمیٹی کوبتایاکہ قیدیوں کے تبادلے پر ممالک ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتے کیوں کہ ماضی میں بیرون ملک سے جو قیدی آئے انہوںنے سزا پوری نہیں کی سزاپوری کرنے کے بجائے عدالتوں نے ان کو رہاکردیا ہے سب سے زیادہ قیدی سعودی عرب میں ہیں 58فیصد قیدی منشیات میں قید ہیں ۔ 27لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں مقیم ہیں۔کمیٹی اجلاس میں اورسیز پاکستانیوں کےلئے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں سیٹیوں کا جائزہ لیا گیا ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ میڈیکل کالجوں میں اوسیز کےلئے سیٹیں مخصوصی تھی جنکو ختم کیا گیا ہے اُس کو بحال کرایا جائے ۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ورکرز ویلفیئر فنڈ کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔سیکرٹری وزارت نے کمیٹی کوبتایاکہ ورکر ویلفیئر فنڈز کے سکول کینسر بن گئے ہیں ان سکولوں کے بچوں پر جتنا خرچ ہورہاہے ان سب کو اگر بڑے پرائیویٹ ادارے میں داخل کردیا جائے تو بھی فنڈز بچ جائیں گے ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ وفاق اس فنڈ کو اکٹھا کرتا ہے اور صوبوں کی طلب پر ادا کیا جاتا ہے ۔ قائمہ کمیٹی نے گزشتہ دس سالوں میں اکٹھا ہونے والا فنڈ اور اُس میں سے صوبہ وائز ادا کئے گئے کی تفصیلات طلب کر لیں۔

قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ تمام ماتحت اداروں کو ایک ایک کر کے طلب کر کے ادارے کے کام کے طریقہ کار اور کار کر دگی کا جائزہ لیا جائے گا ۔ قائمہ کمیٹی کو سیکرٹری لیبر اینڈ مین پاور بلوچستان نے آگاہ کیا کہ صوبہ بلوچستان کے لئے سکولوں ، کالجوں ، ہسپتالوں اور فلیٹوں و دیگرکے تقریباً 12منصوبے ہیں جن کی گونرنگ باڈی نے منظوری بھی دے رکھی ہے مگر فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے منصوبے التوا کا شکار ہیںجس سے اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے چاروں صوبوں میں منصوبہ جات کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کر لی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ملک کے چاروں صوبوں کی ترقی وخوشحالی کےلئے اقدامات اٹھائے جائیں گے ڈبلیو ڈبلیو ایف چاروں صوبوں کے منصوبہ جات کی تفصیلات کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں فراہم کریں ۔قائمہ کمیٹی وزارت سمندر پار پاکستانیزکے ساتھ مل کر مسائل کو حل کریں گی اور بہتر ی کے لئے ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے گا ۔

Shares: