مقبوضہ کشمیر:600 بچوں کی پراسرار گمشدگی :بھارتی فوج ذمہ دارنکلی

0
38

سرینگر:مقبوضہ کشمیر:600 بچوں کی پراسرار گمشدگی :بھارتی فوج ذمہ دارنکلی ،اطلاعات کے مطابق بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار میں انکشاف ہوا ہے کہ غیر قانونی طور پربھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں 2020 تک 627 بچے لاپتہ ہو چکے ہیں۔

ذرائع کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے لاپتہ بچوں میں 350 لڑکے اور 277 لڑکیاں شامل ہیں۔ صرف 2020 میں علاقے میں 230 بچے لاپتہ ہوئے جن میں 167 لڑکیاں اور 63 لڑکے شامل ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں لاپتہ بچوں کی بازیابی کی شرح محض 29.2 فیصد ہے۔ گمشدگی یا لاپتہ عموماً بھارتی فوجیوں، پولیس اور ایجنسیوں کے ہاتھوں ہوتی ہے۔ انسانی سمگلنگ میں غیر کشمیری افراد بشمول بھارتی پولیس اور فوجی اہلکار بھی ملوث ہیں۔

گمشدہ افراد کے والدین پر مشتمل تنظیم ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس ایپئرڈ پرسنز(اے پی ڈی پی) کے اعداد و شمار کے مطابق نوجوان لڑکوں سمیت کم از کم 8000 کشمیریوں کو بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے گرفتارکرکے لاپتہ کر دیا۔شاید ہی کوئی دن ایساگزرا ہو جب مہران کے گھر والوں کو اپنے ساڑھے تین سالہ بچے کی یاد نہ آئی ہو جو 13 سال قبل گھرکے باہر سے لاپتہ ہو گیا تھا۔ یہ اب بھی ایک معمہ ہے کہ مہران گنجان آباد علاقے سے کیسے غائب ہو گیا۔

مہران کے چچا شبیر احمد کلہ نے بتایا کہ ہم اندر سے ٹوٹے ہوئے ہیں لیکن ہم نے امید نہیں چھوڑی، ہمارا پختہ یقین ہے کسی دن وہ لوٹ آئے گا۔ مہران کورٹ روڈ سرینگر کے کینی مشن سکول میں داخلے کے چند ماہ بعد 13 مئی 2008 کو لاپتہ ہو گیاتھا۔ اہل خانہ نے اسی روز تھانہ کرال کھڈ میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی۔سی بی آئی کی تحقیقات کے باوجود آج تک مہران لا پتہ ہے۔

شبیر احمد کلہ نے کہاکہ ہم نے گزشتہ کچھ سالوںسے کیس کی پیروی نہیں کی۔ ہم انفرادی طور پر کشمیر اور یہاں تک کہ نئی دہلی کے کئی مقامات پر گئے لیکن مہران کا پتہ نہیں چل سکا۔ اب ہم نے اسے اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ مہران کو اپنے والدین کے ساتھ دوبارہ ملائے گا۔مہران مقبوضہ جموں وکشمیر میں لاپتہ ہونے والے بچوں کا واحد واقعہ نہیں ہے۔ضلع کپواڑہ کے علاقے آﺅورہ میں 15 فروری کو آٹھ سالہ طالب حسین کے لاپتہ ہونے سے ایک اور خاندان پر غموں پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ تب سے یہ خاندان طالب کا سراغ لگانے کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔مقبوضہ علاقے میں لاپتہ ہونے والے زیادہ تر کیسز حل نہیں ہوئے ہیں۔

Leave a reply