آپ میں سے اکثر لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ابابیل (پرندہ) کنویں میں اپنا گھونسلہ بناتی ہے ،بچوں کو اڑان کی تربیت دینے کے لیے نا تو اس کے پاس وسیع احاطہ میسر ہوتا ہے اور نا ہی وہ اپنے بچوں کو نا کافی تربیت کے ساتھ اڑنے کی اجازت دے سکتی ہے ،کیونکہ وہ جانتی ہے کہ دوسرے پرندوں کی طرح اس کے بچوں کو گر کے سنبھلنے اور دوبارہ اڑان بھرنے کا موقع نہیں ملے گا، بلکہ اگر پہلی اڑان نا کام ہوئ تو اسکا نتیجہ موت ہوگا۔ بچوں کو اس درد ناک موت سے بچانے کے لیئے ابابیل تربیت کی یہ مشقیں بھی اپنی زات پہ کرتی ہے ،بچوں کی ولادت سے پہلے جو ابابیل دن میں 25 اڑانیں بھرتی تھی بچوں کی ولادت کے بعد وہ اپنی اڑانوں کی تعداد تین گنا بڑھا کر 75 کر دیتی ہے ،اور یوں ایک مکمل دن میں دونوں والدین 150 اڑانیں بھرتیں ہیں جس سے بچوں کے دل میں یہ عقیدہ راسخ ہو جاتا ہے کہ یہاں سے اڑ کہ سیدھا باہر جانا ہے کیونکہ بچے انسان کے ہو یا حیوان کہ وہ وہی عادات و انداز اپناتے ہیں جو والدین کو کرتے دیکھتے ہیں ۔اسی طرح ہمارے بچے بھی کل کو وہی کریں گے جو آج ہم انہیں اپنے عمل سے سکھائیں گے ۔
اچھی اولاد صدقہ جاریہ ہوتی ہے اور اچھی اولاد اچھی تربیت سے بنتی ہے،
بچے کی تربیت کا آغاز گھر سے ہوتا ہے کیونکہ ماں کی گود بچے کے لیئے پہلی درسگاہ ہوتی ہے ،بچوں کو اسکول ،کالج یا مدرسہ بھیج کر آپ اسکی تربیت سے بری الزماں نہیں ہو سکتے ،اسے نمازی،پرہیزگار ،سچا اور اچھا انسان نہیں بنا سکتے۔
اگر ہمیں اپنے بچوں کو نمازی بنانا ہے تو اسکے لیئے سختی کرنا یا زبردستی مسجد بھیجنا کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں انہیں نماز پڑھ کے دکھانا ہے انکے لیئے ایک مثال بننا ہے کہ نماز ہر کام سے ضروری ہے ۔
بچوں کے سامنے چھوٹے چھوٹے سچ بولنے کی پریکٹس کریں ۔
بچوں کے دل میں اللہ کا ڈر نہیں بلکہ اللہ سے محبت پیدا کریں ،انہیں بتائیں کہ اللہ آپ سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن جس طرح کوئ بھی غلط کام کرنے پر ہم آپ سے ناراض ہو سکتے ہیں بلکل اسی طرح اللہ تعالی بھی ناراض ہو جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتائیں کہ اللہ پاک انتہائ رحیم و کریم ہیں اگر تم ان کے سامنے سچ بولو گے اپنے گناہ پہ شرمسار ہو گے تو وہ آپ کو معاف کر دیں گے، یقین کیجیئے آپکا بچہ سچ بولنے کا عادی ہوتا جائے گا ۔
سارے دن کے بعد رات سونے سے پہلے کچھ وقت بچوں کے ساتھ گزاریں ان سے دن بھر ہونے والے واقعات کے متعلق پوچھیں اس سے آپ کافی حد تک اپنے بچے کی سر گرمیںوں سے آگاہ رہیں گے ،بچوں سے تمام دن میں ملنے والی کوئ سی تین نعمتوں کے باریں میں پوچھیں تاکہ ان میں اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کے متعلق احساس شکر گزاری پیدا ہو۔
بچوں کو ڈائری لکھنے کی عادت ڈالیں جس میں وہ دن بھر ہونے والے اچھے اور غلط کام لکھیں ،اس سے ان میں اپنی کوتاہیوں کو قبول کرنے کا اور انہیں سدھارنے کا وصف پیدا ہوگا ۔
بچوں کو زرا زرا سی بات پر روک ٹوک نا کریں ،دینی یا دنیاوی جو بھی معاملات ہوں کبھی بھی بچوں سے بہت زیادہ پرفیکشن کا مطالبہ نہ کریں،خاص کر عبادات کے سلسلے میں بہت زیادہ حدود و قیود نا لگائیں کیونکہ یہ باتیں اسے دین سے متنفر کر دیں گی ،پہلے بچے کو اس کام کا یا عبادت کا عادی بنائیں ،جب اس کی عادت پختہ ہو جائے گی ِتو وہ اپنا تجزیہ خود کرے گا۔جب سکول میں تمام سلیبس ایک ساتھ نہیں پڑھایا جاتا تو ہم سارا دین ،سارے ادب و آداب اسے ایک ساتھ کیسے پڑھا سکتے ہیں ۔
آج کے فتنہ پرور دور میں جب قدم قدم پہ بہکنے کا سامان موجود ہے تو بحیثیت والدین آپ کی ڈیوٹی مزید سخت ہو جاتی ہے ،آپ انہیں برائ سے دور نہیں رکھ سکتے لیکن برائ اختیار کرنے سے روک سکتے ہیں ،لیپ ٹاپ ،موبائل نا دینا مسلے کا حل نہیں ہے آج کے دور میں ان چیزوں تک رسائ مشکل نہیں،آپکا کام ان کے دل میں حرام اور حلال کا فرق واضح کر دینا ہے ،ان کہ اندر جواب دہی کا احساس پیدا کرنا ہے پھر وہ خود ان چیزوں سے دوری اختیار کریں گے جن کی اسلام میں ممانعت ہے ۔
بچے میں یہ احساس پیدا کیجیئے کہ اس کا ہر عمل اللہ اور اس کے درمیان ہے اور وہ ہر عمل کے لیئے خالص اللہ کے آگے جواب دہ ہیں ،جب وہ اس بات کو سمجھ لے گا تو پھر دنیا کہ ڈر سے کوئ کام چھپ کر نہیں کرے گا بلکہ وہ اللہ کے ڈر سے کوئ غلط کام کرے گا ہی نہیں ۔
یاد رکھیئے قانون قدرت ہے کہ ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے ،اس کےقلب میں اللہ سے لگاؤ کا شعلہ ٹمٹا رہا ہوتا ہے
ہمیں اس شعلے کو جلا دے کر مشعل بنانے کی ضرورت ہے ۔چھوٹے بچے کی پرورش کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ کہ نرم و نازک پودے کی کانٹ چھانٹ کرنا ،معاشرے میں نمو پاتی مزہب سے دوری اور نسل نوجواں کو بے راہ روی کی تاریکیوں سے نکالنے کے لیئے دیا بننے کی کوشش کیجیئے اپنی اور دوسروں کی اولاد کے لیئے صراط مستقیم کی دعا ضرور کیجیئے ۔
@_Ujala_R








