بھارت کے ٹویٹر صارفین ہمیشہ سے ہی دو گروہوں میں تقسیم رہے ہیں ، ایک طبقہ وہ ہے جس کا کام بس مودی حکومت کی پالیسیز کا دفاع ہے،چاہے وہ بنیادی انسانی اقدار کے منافی ہی کیوں نا ہوں ۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جس نے اپنی ذندگی کا مقصد ہندو شرپسندی کے خلاف جد و جہد بنا رکھا ہے ۔ بی جے پی کے آئی ٹی سیل، سرکار کے خلاف بولنے والے ہر انسان کا جینا حرام کیے رکھتے ہیں اور چاہے وہ انسان مودی کی” گستاخی "کرکے خود بھی بھول چکا ہو مگر یہ آئی ٹی سیل والے ہرگز نہیں بھولتے اور نفرت پھیلانے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔
ویسے تو ذندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگ ان کے نشانے پر ہوتے ہیں مگر اداکاروں سے تو شاید ان کی پیدائشی دشمنی ہے ۔
ہوا کچھ یوں کہ شاہ رخ خان نے بھارتی خواتین کی ہاکی ٹیم کی سپورٹ میں کی گئی ان کے کوچ "سجورڈ مرجنے” کے ٹویٹ کا رپلائی اپنی جانب سے چک دے انڈیا میں نبھائے جانے کردار”کبیر خان” کے انداز میں دیا ۔ چک دے انڈیا ہاکی کے بارے بنائی جانے والی فلم تھی جو 2007 میں ریلیز ہوئی ، بھارت سمیت دنیا بھر میں اس کو خوب پذیرائی ملی ،شاہ رخ نے اس فلم میں بھارتی خواتین کی ہاکی ٹیم کے کوچ کا کردار ادا کیا تھا اور ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا تھا ۔
سارا بھارت اولمپکس میں بھارت کے کھلاڑیوں کی اچھی کارکردگی پر خوش تھا مگر پھر بھی شاید اسی خوشی کا اظہار اگر مودی کا کوئی ناقد یا مسلمان کرے تو بی جے پی کے آئی ٹی سیل اور ہندتوا کے لوگوں کے مطابق وہ رنگ میں بھنگ ڈال دیتا ہے ۔ شاہ رخ نے تو صرف بھارتی ٹیم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار ہی کیا تھا جب کوچ نے اپنی فیملی کو ٹویٹ میں پیغام دیا کے "میں معذرت خواہ ہوں ، کچھ اور دیر تک آوں گا” ساتھ اپنی ٹیم کے ساتھ اپنی سیلفی بھی پوسٹ کی ۔ شاہ رخ نے رپلائی میں کہا” ہاں ہاں کوئی مسئلہ نہیں بس آتے ہوئے تھوڑا سونا(میڈل) لیتے آئیے گا،ایک ارب کی فیملی کے لیے ،اس دفعہ تو دھنتیرس(ہندو تہوار) بھی دو نومبر کو ہے ۔ ۔ ۔ ۔ منجانب : سابقہ کوچ کبیر خان”.
اس رپلائی کے بعد تو جیسے ٹویٹر کے”دانشوروں”کو آگ ہی لگ گئی ۔ بھارتی کھلاڑی جتنے بھی میڈلز جیت کر آتے ہیں ،بی جے پی کے سیاست دان انہیں ائیر پورٹ پر ہی "ہائی جیک” کرکے اپنی نمائشی تقریبوں میں لے جاتے ہیں ،اپنی اور مودی کی شان میں قصیدے پڑھواتے ہیں ۔
اس کے بعد بڑے بڑے پوسٹرز بنائے جاتے ہیں جن پر بیچارے پلئیرز کی تصویر تو کجا ان کا نام بھی اس قدر حقیر لکھا جاتا ہے کے چشمہ لگا کر بھی مشکل سے نظر آئے مگر مودی کی تصویر اس قدر بڑی لگائی جاتی ہے کہ ایسا محسوس ہونا لگتا ہے جیسے اولمپکس میں میڈل اس پلئیر نے نہیں بلکہ مودی نے جیتا ہو ۔ اس پر نا ہی کسی انتہا پسند کو مسئلہ ہوتا ہے اور نا ہی "دیش بھگت” کا ایمان جاگتا ہے ۔ بی جے پی کے طرفدار ڈیجیٹل میڈیا چینل "او پی انڈیا” نے بھی شاہ رخ خان کو "شوخا "قرار دیا،اس منافقت پر صارفین نے ان کو آڑے ہاتھوں لیا اور شاہ رخ خان کو بھی خوب سپورٹ کیا ۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آخر کب تک ٹویٹر نفرت انگیز مواد کو اپنے پلیٹ فارم پر جگہ دے گا کیونکہ یہ صرف بھارتی مسلمانوں کہ لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے مسئلہ ہے ۔