اس نے کہا تھا جو بھی ، مانا اسی کو سب نے
اس کی وجہ سے اب تو شہرت بدل گئی ہے
مسرت ناز
” ون لائن” کی پہلی خاتون لکھاری
اردو ، پنجابی اور انگریزی کی معروف ادیبہ و شاعرہ مسرت ناز صاحبہ کا تعلق گجرانوالہ پنجاب (پاکستان)سے ہے ۔ ان کے والد محترم کا نام عطا محمد، والدہ محترمہ کا نام صفیہ نور اور خاوند محترم کا نام بابر محمود ہے ۔ وہ 6 بہن بھائی ہیں جن میں وہ چوتھے نمبر پر ہیں ۔ ان کی مادری زبان پنجابی ہے ۔ ایف اے تک تعلیم حاصل کی ہے اور شادی کے بعد امور خانہ داری میں مصروف ہو گئیں ۔
ماشاء اللہ ایک بیٹی کی ماں ہیں ۔ ان کے خاندان میں عورت کے شعر و شاعری کو معیوب سمجھا جاتا ہے اس لیئے انہوں نے اپنے گھر والوں سے چھپ کر لکھنا شروع کیا۔ لکھنے کا عمل انہوں نے 13 سال کی عمر سے کیا۔شاعری میں انہوں نے پہلے علامہ ماجد الباقری صاحب اور بعد میں جان کاشمیری صاحب سے بھی اصلاح لی ۔ مسرت ناز صاحبہ حمد ، نعت، گیت، غزل، ملے نغمے ، افسانے اور بچوں کی کہانیاں لکھتی ہیں۔
ان کے یہاں 20 کتابوں کا مواد موجود ہے جن میں سے اب تک ان کی 5 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں 1 روحانی دعائیں (اسماء الحسنی پر مشتمل)2 ۔ میری سوچ (اقوال زریں پر مشتمل)3 . من کی راکھ (شعری مجموعہ)4 . عطائے نور(نعتیہ کلام پر مشتمل) 5 ۔ گلدستہ(بچوں کی کہانیوں پر مشتمل) شامل ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی خاتون لکھاری ہیں کہ جن کی 10 کتابیں ” ون لائن” کے تحت لکھی گئی ہیں اور گیارہویں لکھ رہی ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی بقیہ 15 کتابوں کے مسودے تیار ہیں اور ان شاء اللہ جلد شائع ہو کر مارکیٹ میں دستیاب ہوں گی۔ مسرت ناز بھی دیگر اکثر ادباء اور شعراء و شاعرات کی طرح پاکستان کے سرکاری ادبی اداروں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں ۔ وہ مشاعروں میں بہت کم شریک ہوتی ہیں اس کی وجہ شاید گھریلو مصروفیات اور کتابیں لکھنے کا عمل ہے۔
غزل
غم کھا گئے ہیں دل کو صورت بدل گئی ہے
دیوار پر لگی جو مورت بدل گئی ہے
چڑیوں کے گیت سن کر گانے لگے تھے ہم بھی
سوچا یہی تھا شاید قسمت بدل گئی ہے
اس نے کہا تھا جو بھی مانا اسی کو سب نے
اس کی وجہ سے اب تو شہرت بدل گئی ہے
زخم جگر کو سی کر کرنا ہمیں کیا اب ہے
دن رات اپنی کیسے حاجت بدل گئی ہے
اس کو سنوار کر ہم ٹوٹے ہیں اپنے ہاتھوں
اس کی ہماری پل میں حالت بدل گئی ہے
ہیں انتظار کرتیں اب بھی حوائیں مل لو
کہتے ہیں لوگ اب تو عورت بدل گئی ہے
نظروں میں ہم تھے اس کی دنیا ہمیں سے روشن
جو بھی جڑی تھی ہم سے راحت بدل گئی ہے
چپ چاپ مدتوں تک نفرت چھپا کے پھرنا
وہ تو نہیں ہیں بدلے چاہت بدل گئی ہے
بستے ہیں پتلیوں میں اب بھی وہی جو کل تھے
الزام دے رہے ہیں نیت بدل گئی ہے
لالی جو چھا رہی ہے آنکھوں کے آسماں پر
پھولوں کی جیسے ساری رنگت بدل گئی ہے
وہ بے وفا ہے لیکن یہ مانتے نہیں وہ
نسبت ملی جو ان کی تہمت بدل گئی ہے
رزق حلال دیتا ہے ان کو جو نہ مانے
خالق نہیں ہے بدلا خلقت بدل گئی ہے
اشکوں سے دوستی کی اپنی سزا ہے نازی
بچھڑے وہ جب کے ہم سے وقعت بدل گئی ہے
مسرت ناز