چند ہفتے قبل راقم الحروف نے ایک کالم "اسلام، پردہ اور عورت مارچ” کے عنوان سے لکھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان کے لبرل، سیکولر اور لادین طبقات وزیراعظم کے حجاب کی پابندی سے متعلق بیان پر خاصے رنجیدہ ہیں۔ راقم الحروف نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ یہ لوگ اب کی بار محض "عورت مارچ” تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ کسی بہتر، منظم و مربوط اور جامع ترین منصوبہ بندی سے پاکستان کی ثقافت اور اسلامی اقدار پر حملہ آور ہوں گے۔ بندہ ناچیز کو یہ خدشہ بھی لاحق تھا کہ آئندہ چند روز میں ممکنہ طور پر پاکستان میں ریپ کیسز میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میرے یہ وسوسے خوفناک حقیقت کا روپ دھارے میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ ان چند ہفتوں کے دوران شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب میڈیا یا سوشل میڈیا سے کسی ریپ کیس کی اطلاع نہ ملی ہو۔ کبھی قراتہ العین کیس، کبھی نور مقدم کیس (میری دانست میں یہ بھی ریپ کے بعد قتل کیس ہے)، کبھی کسی معصوم بچی کا کیس تو کبھی کسی بکری کے ساتھ بدفعلی کا کیس اور اب ایک مولوی کے ہاتھوں چار سالہ معصوم بچی کے ریپ کا کیس یکے بعد دیگرے ہماری نظروں سے گزر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یک دم پاکستانیوں میں اس قدر حیوانیت کیسے بھر گئی اور نہ ہی میں یہ سمجھ پا رہا ہوں کہ اس پھیلتی ہوئی آگ کا ذمہ دار اپنے اداروں کو ٹھہراوں یا پارلیمنٹ کو، میں اس کا دوش والدین کی تربیت کو دوں یا معاشرے کی صحبت کو۔ میں یہ فیصلہ کرنے سے بھی قاصر ہوں کہ قصوروار جنسی حیوان ہی ہیں یا ہم بھی شریک جرم ہیں۔ میرا سر چکرا کر رہ جاتا ہے جب میں سوچتا ہوں کہ عورت نہ تو Living Relationship کے قائل آزاد خیال ترین معاشرے میں محفوظ ہے اور نہ ہی مساجد کے طیب و طاہر ماحول میں۔ دوسرے طبقے کی بات کیا کرنی مگر ہمارے مولوی حضرات کو یک دم سے کیا انہونی بیت گئی وہ مساجد میں ہی۔۔۔۔۔ استغفراللہ
لکھاریوں کے قلم اس حساس ترین موضوع پر ہر واقعہ کی مذمت میں حرکت میں آئے مگر بندہ ناچیز خاموشی سے تمام معاملات کے مشاہدہ کی کوشش کرتا رہا کیونکہ راقم الحروف وقتی اور جذباتی سوچ سے اجتناب کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف زوایوں سے سوچنے کے مرض میں بھی مبتلا ہے۔ میں اس بات کا بارہا اظہار کر چکا ہوں کہ پاکستان بین الاقوامی گریٹر گیمز (International Greater Games) کا سرکردہ اور اہم ترین سٹیک ہولڈر یعنی شراکت دار ہے۔ اقوام عالم میں پاکستان کا اثرو رسوخ آئے دن بہتر سے بہترین کی جانب گامزن ہے۔ اسی لیے سوچ کا ایک زاویہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان میں ریپ کیسز کا بڑھنا، ان کی بڑے پیمانے پر میڈیا رپورٹنگ، واقعات کی سوشل میڈیا پر انتہا کو چھوتی تشہیر اور پاکستان کو خواتین کے لیے غیر محفوظ اور متشدد ملک ثابت کرنے کی کوشش کرنا پاکستان کے خلاف کسی گھمبیر سازش کا پیش خیمہ ہے۔ اور اس سوچ کی وجہ یہ ہے کہ ساوتھ افریقہ، آسٹریلیا، بیلجیئم، امریکہ، فرانس، سویڈن، آسٹریا اور بھارت جیسے ریپ کیسز کے سر فہرست ممالک کو چھوڑ کر کم ترین سکور کے ساتھ فہرست کے آخری اور نچلے ترین درجوں میں موجود پاکستان کو دنیا کے سامنے "#ریسپتان” بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حقوق نسواں کی علمبردار این جی اوز کا سارا نزلہ بھی اسی ملک پر گرتا ہے۔ اور حقوق نسواں کو لے کر تمام تنقیدی توپوں کا رخ پاکستان کی جانب ہے۔ یہ تصویر کا ایک رخ تھا
اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ کرتے ہیں۔ بالفرض اگر یہ کوئی سازش بھی ہے تو ہم اپنے وطن کے خلاف اس سازش میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ یہاں پے در پے ہونے والے واقعات کو نہ تو ہم نے سنجیدگی سے لیا اور نہ ہی ان واقعات کی روک تھام اور قانون کی مناسب انداز میں عملداری کے لیے منظم اور ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ زینب انصاری، چارسدہ کی زینب، حوض نور، مشال، قراتہ العین اور موٹروے پر خاتون کی عصمت دری سمیت نہ جانے کتنے ہی واقعات ایسے ہوں گے جن سے ہمارا سامنا ہوا مگر ہم نے کسی ایک سے بھی عبرت حاصل نہیں کی۔ ہمارے یہاں ایک افسوس ناک رواج جنم لے چکا ہے کہ یہاں واقعہ رونما ہوتا ہے، میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنتا ہے، سرکار کی جانب سے واقعہ کا نوٹس لیا جاتا ہے، کمیٹی بنائی جاتی ہے، واقعہ کی کمزور تفتیش عمل میں لائی جاتی ہے، ملزم کے خلاف طویل عدالتی کاروائی کا آغاز ہوتا ہے اور یہ معاملہ ابھی جوں کا توں لٹکا ہوتا ہے کہ اتنی دیر میں ہم دوسرے واقعہ کو جھیل کر اسی بیان کردہ سرکل کے پہلے مرحلے میں دوبارہ داخل ہوچکے ہوتے ہیں۔ منظم قانون سازی، قانون کی مناسب عملداری، معیاری تفتیش، فوری اور منصفانہ عدالتی کاروائی اور مثالی سزاوں کی عدم دستیابی حیوان صفت جنسی مریضوں کے حوصلے مزید بلند کر رہی ہے جس کے باعث جنسی زیادتی یا ریپ کی آگ کئی زندگیاں اور گھر برباد کرتی ہوئی مسلسل پھیل رہی ہے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں جب پوری دنیا کی خواتین ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں اور ہم اپنی خواتین کو تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہیں تو یقینی طور پر ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی اشد ضرورت ہے۔ ریپ کیسز کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ان کی اس قدر میڈیا تشہیر نے حصول علم و رزق کی خاطر گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کا مستقبل داو پر لگا دیا ہے۔ حالات ایسے بن چکے ہیں کہ والدین اپنی بچیوں کے گھر سے نکلنے پر تشویش میں مبتلا ہیں۔
خواتین کو تحفظ اور ان کے خاندانوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت پاکستان حالات و واقعات کی سنجیدگی سمجھے اور ایک حقیقی اسلامی ریاست ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بڑھتے ہوئے ریپ کیسز کی روک تھام کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروکار لائے۔ فحش بینی اور دیگر غیر اخلاقی حرکات جو ایسے واقعات کا پیش خیمہ بنتی ہیں ان کو حتی الامکان حد تک روکا جائے۔ پارلیمنٹ میں انسداد ریپ آرڈیننس 2020 اور ریپ سے متعلق موجود قانون پر اسکی حقیقی روح کے مطابق عملداری کے لیے جامع اور منظم طریقہ کار وضع کیا جائے اور ایسے واقعات کا شکار لوگوں کے لیے عدالتی انصاف کی ترجیحی بنیادوں پر فراہمی کا اہتمام کیا جائے۔ میرے نزدیک ایک فلاحی ریاست کی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ہر شہری کو معاشرے کا باکردار اور مہذب فرد بننے میں مدد فراہم کرے۔ لہذا عوام الناس میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے آگہی اور شعور اجاگر کرنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات اٹھائے جانے چاہیں۔ اس مقصد کے لیے میڈیا کا استعمال انتہائی مفید ثابت ہوسکتا ہے کہ میڈیا کی بدولت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تہذیب یافتہ معاشرے سے متعلق آگہی پھیلائی جا سکتی ہے۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے تاکہ سکول، کالجز، مدارس اور کام کاروبار کی جگہوں پر خواتین کو محفوظ ماحول میسر آ سکے۔
حکومت کے ساتھ خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ذمہ داری ہر باشعور اور مہذب شہری پر بھی عائد ہوتی ہے۔ سماجی کارکنان، انسانی حقوق کے تحفظ کی تنظیموں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اس نیک عمل میں حصہ لیں اور معاشرے میں خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے شعور کو اجاگر کرنے میں تعمیری کردار ادا کریں۔ میرے نزدیک ایک خاتون کو تحفظ فراہم کرنے سے مراد آئندہ ایک مکمل نسل کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ عورت کا تحفظ ہماری ایک قومی ذمہ داری ہے جس کی تکمیل ہم سب کے ذمے ہے۔
@DSI786