عورت ماں، بہین اور بیٹی ہے۔ تحریر : راجہ حشام صادق

0
77

دل ہے کہ ماننے کو تیار ہی نہیں ابھی چند دن پہلے جو صوبہ پنجاب کے دارالخلافہ لاہور میں ہوا مینار پاکستان میں عائشہ نامی ٹک ٹوکر لڑکی کے ساتھ جو واقعہ ہوا یہ واقعہ قابل مذمت ہے اللہ پاک نہ کریں ایسا واقعہ کسی کے ساتھ ہو
میرے لیے اس واقعہ پر یقین کرنا انتہائی مشکل ترین ہے۔ یہ اس شہر کا واقعہ ہے جہاں کے لوگ زندہ دلانے لاہور کہلاتے ہیں۔ میرا دل و دماغ یہ ماننے کو ہر گز تیار نہیں ہے کہ چار سو مردوں نے ایک اکیلی وہ بھی نہتی لڑکی کے ساتھ زیادتی کر دی
یہ کیسے ممکن ہے کہ چار سو کے چار سو ہی ایک ہی کام میں لگے ہوں۔

دیکھنے اور سننے میں تو یہ آتا ہے کہ آج بھی اگر اس قوم کی ماں، بہین ، بیٹی کو دو لڑکے راہ چلتے چھیڑ دیں تو دو سو بھائی اور اس قوم کے بیٹے ان دو لڑکوں کی وہ ٹھکائ شروع کرتے ہیں کہ انہیں وہاں سے دم دبا کے بھاگنا ہی پڑھتا ہے۔ اور ایسے موقعوں پر ہر راہ گیر بھائی بن کر اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی حفاظت کرتے ہیں۔کوئی خاتون اگر مذاق میں بھی یہ کہہ دے کہ اس لڑکے نے مجھے چھیڑا ہے تو اس قوم کے بیٹے پھر نہ آو دیکھتے ہیں نہ تاو بنا تصدیق کے ہی یہ بھائی اس لڑکی کی بات کو سچ مانتے ہوئے لڑکے پر اپنے ہاتھ صاف کرنا شروع کر دینگے ایک اور بات جانے اتنے جلدی یہ سب بھائی اکھٹے کیسے ہو جاتے ہیں کہ ایک ہجوم سا بن جاتا ہے۔اور پھر جب تک پولیس نہ پہنچ جائے وہ لڑکا ہجوم سے پٹتا ہی رہتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہم پاکستانی بہت جزباتی لوگ ہیں جو کبھی بھی کسی بھی واقعہ کی بنیادی وجہ کو تلاش نہیں کرتے شاخوں پر چھولتے رہیں گے مگر بیماری کو جڑ سے نہیں پکڑیں گے۔
اگر چار سو لڑکوں نے ایسا کیا ہے تو ہرگز ان کی طرف داری نہیں کی جاسکتی بلکہ ان کا یہ عمل انتہائ قابل مزمت ہے

مگر دوسری طرف یہ بھی تو دیکھیں کہ وہ لڑکی وہاں مینار پاکستان پے کیا کر رہی تھی؟ یہ ٹک ٹوک اور مختلف لائیو اپس کی ایپلی کیشن کیسے عورت کو ایک نمائشی آلہ بنائےچلی جارہی ہیں۔ اور میری بہنوں کیا ہو گیا ہے تم کو عورت ہے کہ نمائش بنتی جا رہی ہے۔چند لائک اور فالوورز کے چکر میں سرئے عام ، پارک میں ، چلتی سڑک پر ، اسی معاشرے کے مردوں کے ہجوم میں یہ دوپٹہ اتار دینا ، باریک اور تنگ لباس پہن کر کے رقص کرتے ہوئے اپنی ویڈیو بنانا۔ایسی سستی شہرت حاصل کرنے کی چکر میں آپ کو عزت سے ہاتھ تو دھونا ہی پڑیں گے ۔محترم حریم شاہ بنیں گی تو مولوی عبدالقوی تو پھر ہر جگہ مل ہی جائیں گے۔ شہد کو کھولا رکھنے سے مکھیاں تو اس پے بیٹھیں گی۔

وہ لڑکے بھی قابل لعنت ہیں جو اس گندے فعل کے مرتکب ہوئے ڈوب مرنے کا مقام ہے ان کے لئے بھی اس ٹک ٹوک ایپلی کیشن نےتو اخلاقیات کا جنازہ ہی نکال رکھا ہے۔
میں حکومت وقت سے اپیل کروں گا کہ ایسی اپس فوری طور پر پاکستان میں بند کی جانی چاہئیں۔
ایسی خواتین جن کو گھر یا خاندان کی عزت کا کوئی خیال نہیں ہے وہ اپنے ہاتھ یا پیر دکھا کر بکواس اور بےہودہ جملوں کا استعمال کرلیتی ہیں ۔ کبھی آپ ان لڑکیوں کی ان ویڈیوز پر کمنٹس پڑھ لیں تو اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے رہ جائیں گے ۔یہ سب ہو کیا ہورہا ہے؟؟؟

قارئین عورت کی اتنی تزلیل کہ وہ ایک مارکیٹنگ ٹول بن کے رہ گئی ہے ۔یاد رکھیں عورت ماں، بہین ،بیٹی اور پھر ایک بیوی ہے۔ایک اچھی ماں ہی معاشرے کی نشوونما کر سکتی ہے ۔ایک ماں نے ہی ہماری آنے والی نسل کو سنوارنا ہے۔ اپنی پرورش سےہماری اقداراور رواج کو نئ نسل میں منتقل کرنا ہے ۔ ذرہ سوچیئے گا ضرور کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ کس طرف جا رہے ہیں ہم؟ کیا ہم خود ہی اس معاشرے میں جنسی بے راہ روی اور فریسٹریشن کو جنم نہیں دے رہے؟

اللہ پاک ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور ہمارے معاشرے پر رحم کرے ۔اللہ تعالٰی آپ سب کا حامی ناصر ہو۔آمین ثم آمین

@No1Hasham

Leave a reply