مزید دیکھیں

مقبول

وزیراعظم کے مہنگائی کم کرنے کے دعوے قوم کے ساتھ مذاق ہیں،حافظ نعیم

لاہور: امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے...

بھارت کا انٹرنیٹ کیلئے اسپیس ایکس کے ساتھ معاہدہ

بھارتی ٹیلی کام کمپنی ’ایئرٹیل‘ نے ملک میں اسٹارلنک...

گوادر ایئرپورٹ کیخلاف عالمی میڈیا کا پروپیگنڈا بےنقاب

گوادر ایئرپورٹ کے خلاف عالمی میڈیا نے پروپیگنڈا...

سندھ میں ڈیوٹی سے غیر حاضر44 اساتذہ نوکریوں سے برطرف

شہدادکوٹ میں ڈیوٹی سے غیر حاضر 44 پرائمری اساتذہ...

آئندہ ہفتے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کا امکان

اسلام آباد: آئندہ ہفتے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں...

عورت مارچ اور چند حقائق تحریر : راجہ حشام صادق

دین اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی عورت کو اس کے حقوق دے دیئے ہیں آج کل کے یہ عورت مارچ جن حقوق کے لیے گھروں سے نکل رہی ہیں وہ دین اسلام کے نہ تو بنیادی حقوق ہیں نہ ہی اسلام نے عورت کو اتنی آزادی کی اجازت دی ہے۔ باپ بھائی بیٹے اور شوہر کی صورت میں قابل عزت رشتے عورت کے محافظ اور طاقت ہوتے ہیں

سب سے پہلے تو ہم جس ملک میں رہتے ہیں یہ ملک ہمارے بڑوں نے بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا اور ملک پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اس بنیاد پے بنا تھا یہ ملک

ہم سب جس معاشرے کا حصہ ہیں یہاں کی خواتین باحیا ہیں الحمدللہ دین اسلام کے بتائے گئے اصولوں پر زندگی گزارتی ہیں ۔ عورت مارچ کو سڑکوں پر نکلنے اور حقوق کے لیے احتجاج کرنے کا موقع مل رہا ہے تو کہیں نہ کہیں ہمارے قانون کا بھی ہاتھ ہے۔

بہت سارے ایسے واقعات ہوئے ہیں جس سے عورت یہ سمجھتی ہے کہ وہ غیر محفوظ ہے۔وہ شاید سمجھتی ہے کہ یہاں دوندا صفت انسان بستے ہیں اور جنگل کا قانون ہے یہاں۔
بہت سے ایسے واقعات جس میں معصوم بچیوں کا ریپ کیا گیا ہے یا پھر دفاتر اور مختلف ایسی جگہیں جہاں مرد و خواتین ایک ساتھ کام کرتے ہیں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ عورت پھر بغاوت کرنے پے اتر آتی ہے کچھ نام نہاد دین کے ٹھیکیدار تو بچوں کے ساتھ بھی جنسی زیادتی کرتے پائے گئے سکولز اور یونورسٹیز میں بھی کسی کی عزت محفوظ نہیں رہتی

قارئین اس عورت مارچ کے حوالے سے ہمارا غم و غصہ اپنی جگہ لیکن اس کے کچھ اور پہلو بھی ہیں۔
جنگل کا قانون تو ٹھیک ہے مگر کہیں نہ کہیں مرد حضرات بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں
معاشرے میں بسنے والے مردوں کا منفی رویہ بھی سامنے رکھنا چاہیئے جہاں ایک طوائف کو بدکردار کہا جاتا ہے۔ اور اسے پورے معاشرے میں کوئی عزت نہیں دی جاتی لیکن اس کے پاس جاتا کون ہے اس معاشرے کے باعزت کہلانے والے افراد اور پھر ان کی اونچی شان اور عزت میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔

کیا اس معاشرے میں بغاوت کی ذمہ دار صرف عورت ہے؟
ایک جنگل کا قانون اور دوسرے وہ مرد بھی برابر کے مجرم ہیں جو عورت کے حقوق پر ڈاکا ڈالتے ہیں
اور ان کو غلط راستے پر چلنے کے لیے مجبور کرتے ہیں کوئی بھی عورت باغی پیدا نہیں ہوتی بلکہ معاشرے میں بسنے والے لوگوں کے رویے اور بنائے گئے حالات اسے مجبور کر دیتے ہیں اس مارچ پے تنقید کرنا اور اسے روکنا ہمارا فرض ہے۔

ہمیں بھی یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ معاشرہ صرف مردوں کا نہیں اس میں جو حقوق دین اسلام نے عورت کو دیئے ہیں اس پر عملدرآمد کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور قانون کے رکھوالوں سے بھی گزارش ہے کہ یہ لا قانونیت کا دبہ اپنے اوپر سے اتار پھینکیئے اور مدینہ جیسی ریاست کو بنیاد بنا کر اس ماڈل کی ریاست بنانے کے بارئے قانون بنائے

اللہ پاک ہم سب کا حامی ناصر ہو

@No1Hasham

راجہ حشام
راجہ حشام
Hasham Sadiq is a freelance content writer, blogger, social media activist. He is raising awareness for social issues. Find out more about his work on his Twitter account @No1Hasham