واقعہ مینار پاکستان_خود کو مشہور کرنے کے لئے رچایا گیا ایک فلاپ ڈرامہ لیکن مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب۔

تواجہ لینی تھی لے لی۔۔۔ ہمدردیاں سمیٹنی تھیں سمیٹ لیں۔۔۔ اور اس سے بھی بڑا ہدف۔۔۔ وطن عزیز کو ایک غیر محفوظ ملک مشہور کرنے کے لئے بھارتی میڈیا سے مدد پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا اور اس سب میں ساتھ دیا عورت کے نام نہاد خیر خواہ صحافیوں یاسر شامی اور اقرارالحسن نے۔

اس واقعہ سے پہلے عائشہ نامی خاتون کو ایک پرائیوٹ پارٹی سنگر کے طور پر بھی اکا دکا لوگ جانتے تھے اور میں سٹریم میڈیا پہ تو اس کا کوئی نام جانتا تھا نہ کام، لیکن اب ہر جگہ سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اس کی بات ہو رہی ہے جیسا وہ چاہتی تھی۔ جیسے ہی ٹک ٹاکر والی ویڈیو وائرل ہوئی سارے پاکستانیوں نے رنج وغم میں مبتلا ہو کر جسٹس فار عائشہ،تمام مرد جنسی کتے ہیں اور عورت کے تحفظ پر ٹینڈز کی بھرمار کر دی تقریبا” آدھے پاکستانيوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحيتيں ختم ہوگئیں حالانکہ کفن پہن کر مرنے کا ڈرامہ، شوہر کے جھوٹی موت کی خبر اور اپنی ہی پورن ویڈیوز لیک جیسے سٹنٹس تو ہم ماضی میں دیکھ ہی چکے ہیں لیکن بحثیت قوم ہماری یاداشت بہے کمزور ہے۔

عائشہ کے لئے انصاف مانگنے والے اور اس واقعہ پر بیٹی نہ ہونے پر خدا کا شکر ادا کرنے والے نام نہاد عزت دار اور غیرجانبدار صحافی نے یہ اس پلانٹڈ انٹرویو میں یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ کیا اس خاتون نے پبلک پلیس پر ایک اجتماع اکٹھا کرنے کے لئے لوکل گورنمنٹ سے اسکی اجازت لی؟ اگر ہاں تو اس حادثے میں ذمہ داران (لوکل۔سیکورٹی) کی کوتاہی پر سوال کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ اور اگر نہیں تو پھر خاتون نے کس مقصد کے تحت اس اجتماع کو خفیہ رکھ کر لوگوں کو جمع کیا؟ اور بےغیر اجازت 400 بندہ اکٹھا ہونے، اور اس طوفان بدتمیزی کے باوجود اگر مینار پاکستان کی سیکیورٹی حرکت میں کیوں نہیں آئی۔۔۔ کیا یہ خاموشی بھی اس ڈرامے کا حصہ تھی یا ڈیپارٹمنٹ کی ستو مارکہ کوتاہی ہے کہ اس کو علم ہی نہ ہو سکا اور قوم کی بیٹی بنی ایک خاتون وہاں جلسہ کرتی 400 لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی؟ اس کے والدین نے اسکی اجازت کیسے دی ؟ اسکی ماں کو اپنی بیٹی کا ذرا بھی خیال نہیں آیا کہ بیٹی کہاں کہاں گھوم پھر کے آ رہی ہے ؟ اس کے دوست کون لوگ ہیں؟ کس کے ساتھ کام کر رہی ہے؟کام کی نوعیت کیا ہے؟ کام ٹھیک ہے یا غلط؟ یہ تمام سوالات ایک طرف کیا خاتون سے صرف یہ پوچھا کہ گیا اس 400 مردوں کے ہمراہ ایک نامحرم مرد کی بانہوں کے حصار میں مارچ کرتی یہ تنہا قوم کی بیٹی وہاں کیا کر رہی تھی؟ کیا عائشہ کے والدین نے ذرا بھی نہیں سوچا کہ اسکی بیٹی مرد ہے یا عورت ۔۔۔ عورت ہے تو مردوں کے بیچ کیا کرنے گئی تھی، اگر مرد نما عورت ہے تو مردوں سے کیا گلہ؟ عرض یہ کہ اس کے والدین کے صلاح سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے کہ مادیت پرستی کی اس دوڑ میں پیسہ کمانے کا شارٹ کٹ یہی ہے کہ ملک میں عورت کارڈ کو لے کر تحفظ کے لئے ننگ دین و ننگ ملت ہو جاو میں پوری وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتی ہوں کچھ عرصہ بعد یہ ڈرامہ کوین ٹی وی کے مختلف اشتہاروں میں اور ٹی وی پروگرام میں بیٹھ کر مردوں کے خلاف بکواس کرتی نظر آئے گی 8 مارچ کے منصوبے پر کام کر رہی ہوگی، اس کا پری ٹریلر تو مغربی لباس میں ناچتے پبلک ویڈیوز کے بعد خاتون کا حجاب میں ایک نجی چینل کو دیا گیا بے پناہ جھوٹوں پہ مشتمل بوگس انٹرویو ہے۔

مختصر یہ کہ یہ ایک رچا رچایا ڈرامہ تھا جو بہت سے لوگوں معلوم ہوا کچھ جو باقی انجان بننے پھیر رہے ہیں وہ یا تو معلومات محدود رکھتے ہیں یا لبرلستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں جرم ہو وہاں مرد اور عورت کا تفریق نہیں ہے جرم دیکھا جاتا ہے اور اس حساب سے اس کی سزا کا تعین ہمارے رب نے کر دیا ہے۔ لیکن جہاں 8 مارچ کی منصوبہ پر کام ہو رہا ہو صرف مرد کو جانور ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے سارا جھگڑا ہی اسی بات پر ہے ۔ جن جرائم کا ذکر اکثر تحریروں میں مرد ناقابل بھروسہ اور جانور ثابت کرنے پر ہے میرا ذاتی موقف یہ ہے کہ انکو عبرت ناک سزا دی جائے اور سزا بھی ایسی جگہ جہاں سے ساری دنیا دیکھ سکے اور عبرت پکڑے (لیکن پھر یہی ٹولہ ان سزاؤں کے قانون بننے پہ مخالفت کرتا نظر آتا ہے) لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں کی مرد بھروسہ مند نہیں۔
یہی مرد باپ کی شکل میں تو فرشتہ ۔
بھائی کی شکل میں تو محافظ۔
خاوند کی شکل میں ہو تو بیوی کی چھوٹی سی دنیا کا شہنشاہ۔
بیٹے کی شکل میں تو مان۔
پوتے کی شکل میں ہو تو محبت ۔
اور کتنے مجبوب رشتے ہیں جو اس مرد ذات سے وابستہ ہیں۔
ہاں اگر مرد بوائے فرینڈ کی شکل میں یہ بھیڑیا ہے جس سے ہمارا مذہب ہمیں منع کرتا ہے۔۔۔نہیں تو لاہور جی سی یونیورسٹی جیسا پروپوزل دیکھنے کو ملے گا، یونیورسٹی آف لاہور کی طالبہ کی بچے کی پیدائش سے موت، نور مقدم جیسے دردناک قتل وغیرہ جیسے واقعات روز رونما ہونگے۔ اور ملکی غیرت و حمیت کو سوالیہ نشان بنایا جاتا رہےگا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی ایسا ہی "غیر محفوظ عورت” کا فتنہ اٹھا تھا جس کو وقتی طور پر دبا لیا گیا وطن عزیز کی دن دگنی ترقی اور جیوپولیٹک اینڈ اسٹریٹجک پوزیشن کے باعث بڑھتی ہوئی مقبولیت عالمی سطح پر تنہا رہ جانے والے بھارت کی آنکھوں میں کھٹکتی بےچینی کو صاف ظاہر کرتی ہے، سپر پاور شفٹ پر بنتے ایک نئے پاور بلاک پر امریکہ مہاراج کے پاس بھی اور کوئی ہتھیار نہیں بچا کہ پاکستان کو لگام ڈال سکے تو ایسے موقع پر اس قسم کے ایک آدھ واقعات کا رونما کو جانا انہونی نہیں ہے کہ عورت کارڈ ہی تو جس پر انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اپنی مداخلت کر کے من مرضی کے حالات کے لئے راہ ہموار کر سکتی ہیں۔

ضرورت اس امر ہے کہ متعلقہ ادارے اس گھناونے کھیل کے مہروں (کھلاڑی اور لکھاری) کو حراست میں لے کر اس کی تحقیق کریں، محض عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے چند افسروں کا تبادلہ یا معطلی کافی نہیں ہے، معاملے کی جڑ تک پہنچیں اور عوام کو اعتماد میں لے کر بتایا جائے کہ اس کھیل کے مہروں کی ڈوریاں کہاں ملتی ہیں؟ بحثیت قوم ہمیں اپنے فرض کو پہچانتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے یوں سوچے سمجھے منصوبوں پر کامن ٹرینڈ پہ تاثرات کو چھوڑنا ہوگا کہ لاکھوں قربانیاں دے کر حاصل کیئے اس ملک کو چند لوگوں کے ذاتی مفاد کے لئے یرغمال ہونے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔

اللہ ہم سب کی حفاظت کرے اور ملک پاکستان کا امن قائم رکھے۔ آمین

@BetaGirl__

Shares: