وراثت ایک شرعی حق ہے اس میں کوتاہیاں عام ہیں۔شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ ہم جن علاقوں اور معاشروں میں رہتے ہیں ۔وہاں نہ جانے کتنی ایسی غلط رسمیں ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں، لیکن جب ہم ان معاشروں میں پہنچتے ہیں تو ان کی روک تھام کے لئے کوشش کرنے کی بجائے خود ان کا حصہ بن جاتے ہیں ۔
ہمیں دن رات یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ ہمارے معاشرہ میں بھی عورتوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں ۔مثلاً باپ نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر بیٹی سے اجازت لئے بغیر اس کی شادی کردی ۔بیٹی کو یہ بات کہنے کی اجازت نہیں کہ فلاں رشتہ مجھے پسند نہیں، یہ بات باپ کی غیرت کے خلاف ہے وہ قتل کرنے کیلئے آمادہ ہوجاتا ہے کہ تجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ تو میرے فیصلے کے خلاف زبان کھولے، نتیجہ یہ کہ اس بیچاری کی ساری زندگی جہنم بن جاتی ہے۔
اسی طرح یہ بھی عام رواج ہے کہ بیٹی کو ترکے میں سے کوئی حق نہیں دیا جاتا ۔اسی طرح عورت اگر بیوہ ہوجائے تو اس کے لیے دوسرے نکاح کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے بلکل ایسا جیسے کفر، حالانکہ ہمارے بزرگوں نے نکاح بیوگان کے حق میں عملی جہاد کیا ۔لیکن ہم اپنے معاشرے میں ان رسموں کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے ان کے اندر بہہ جاتے ہیں ۔
وراثت میں زبانی معافی کا اعتبار نہیں! کراچی سے پشاور اور کوئٹہ سے طورخم تک جہاں کسی کا انتقال ہوتا ہے اس کا سارا ترکہ اس کے بیٹے لے جاتے ہیں ۔بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا لیکن ہم نے کتنی مرتبہ اس کے خلاف آواز اٹھائی؟
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہماری بہنوں نے ہمارا حصہ بخش دیا اول تو بخشا نہیں ہوتا، بلکہ بہن کو پتہ ہوتا ہے کہ اگر میں نے ذرا سی زبان کھولی تو میرا بھائی میری زندگی عذاب کردے گا اور دوسری بات یہ ہے کہ ترکے کےبارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کوئی وارث زبان سے بھی کہہ دے کہ میں نے بخش دیا تو وہ بخشنا معتبر نہیں معتبر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس کا حصہ اس کے قبضہ میں دو ۔اس پر قبضہ کرنے کے بعد اگر وہ اپنی خوشدلی سے تمہیں کچھ دینا چاہے تو دیدے ۔اس لئے لوگوں کا یہ حیلہ سراسر غلط اور خلافِ شریعت ہے ۔
یہی حال مہر کا ہے کہ نکاح کے وقت تو بھاری مہر مقرر کرلیتے ہیں اور دینے کی نیت ہوتی نہیں ۔جب بیچاری کے مرنے کا وقت اپہنچا تو اس وقت اسے کہتے ہیں کہ اللہ کے لئے مجھے مہر معاف کردو ۔اب بیچاری کیا کہے کہ میں معاف نہیں کرتی، ظاہر ہے کہ اس موقع پر وہ زبان سے معاف کردیتی ہے، لیکن یہ معافی شرعاً معتبر نہیں ۔
مغرب نے عورتوں کو جو اذادی دی ہے ہم بعض اوقات اسکے خلاف تو بولتے ہیں اور بولنا بھی چاہئے لیکن اس اذادی کا ایک سبب وہ ظلم بھی ہے جو ہمارے یہاں عورتوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے ۔اس لئے اس اذادی کے خلاف آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ ان مظالم کے بارے میں گفتگو کرنا بھی ضروری ہے ۔جن کی چکی میں ہماری مشرقی عورت پس رہی ہے ۔
آج ہمارا سارا معاشرہ اس بات سے بھرا ہوا ہے کہ کوئی بات صاف ہی نہیں ۔اگر باپ بیٹوں کے درمیان کاروبار ہے تو وہ کاروبار ویسے ہی چل رہا ہے ۔اس کی کوئی وضاحت نہیں ہوتی کہ بیٹے باپ کے ساتھ جو کام کررہے ہیں وہ آیا شریک کی حیثیت میں کررہے ہیں، یا ملازم کی حیثیت میں کررہے ہیں یا ویسے ہی باپ کی مفت مدد کررہے ہیں اس کا کچھ پتہ نہیں مگر تجارت ہورہی ہے ۔ملیں قائم ہورہی ہیں دکانیں بڑھتی جارہی ہیں ۔مال اور جائیداد بڑھتا جارہا ہے لیکن یہ پتہ نہیں ہے کہ کس کا کتنا حصہ ہے ۔اگر ان سے کہا بھی جائے کہ اپنے معاملات کو صاف کرو، تو جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو غیرت کی بات ہے ۔بھائیوں بھائیوں میں صفائی کی کیا ضرورت ہے؟
یا باپ بیٹوں میں صفائی کی کیا ضرورت ہے؟
اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب شادیاں ہوجاتی ہیں اور بچے ہوجاتے ہیں اور شادی میں کسی نے زیادہ خرچ کرلیا اور کسی نے کم خرچ کیا، یا ایک بھائی نے مکان بنا لیا اور دوسرے نے ابھی تک مکان نہیں بنایا ۔بس اب دل میں شکایتیں اور ایک دوسرے کی طرف سے کینہ پیدا ہونا شروع ہوگیا اور اب آپس میں جھگڑے شروع ہو گئے کہ فلاں زیادہ کھا گیا اور مجھے کم ملا اس دوران باپ کا انتقال ہوجائے تو اس کے بعد بھائیوں کے درمیان جو لڑائی اور جھگڑے ہوتے ہیں. وہ لا متناہی ہوتے ہیں ۔پھر ان کے حل کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ۔
Twitter | @AdnaniYousafzai