زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے:مگرہمارا ٹرانسپورٹ نظام:انسانی جانوں‌ کےضیاع کاسبب

0
98

لاہور:زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے :مگرہمارا ٹرانسپورٹ نظام:انسانی جانوں‌ کے ضیاع کا سبب،پاکستان میں آئے روز ٹریفک حادثات پرشورشرابہ توہوتا ہے مگراس کے اسباب پرکبھی بھی کسی نے توجہ نہیں دی ، بسوں سے لیکرریل گاڑیوں تک ہرمسافربردار گاڑی اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہی ہے اورپھراس پرمسافروں‌ کو بٹھا کران کو اگلے جہان بھیجنے میں‌ آسانی فراہم کی جاتی ہے ،

اس حوالے سے ایک مسافر نے کچھ یوں بیان کیا ہےکہ پاکستان خستہ حال مسافربردارگاڑیوں‌ پسماندہ علاقوں کا سفرکتنا مشکل ہوجاتا ہے جہاں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوں اورجہاں‌ بسیں اورگاڑیاں ناکارہ ہوچکی ہوں‌ اورپھربھی ان کو استعمال میں لایا جائے ،

وہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں‌ "اگرآپ پسندیدگی کی ایک جھلک دیکھنا چاہتے ہیں؟ کچھ پسماندہ علاقے سے ڈیوو میں سفر کریں۔ آپ کے ساتھ کچھ کچرا اور دنیا کی بدترین قسم کی بسوں میں سے کسی ایک پرسفرکرکے دیکھیں‌۔

وہ کہتےہیں کہ "بیشک زندگی ، موت اللہ کے ہاتھ میں ہے” لیکن انہیں لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے لیے ایک باقاعدہ کھیل کھیلا جاتا ہے ۔ ریلوے سے بس سروس تک ، ہم اپنے ٹرانسپورٹیشن سسٹم سے انتہائی مایوس ہیں۔

وہ کہتے ہیں‌کہ کیا کوئی بیرونی معائنہ کرنے والی ایجنسی ہے جو مسافروں کی حفاظت کے لیے ان کےحفاظتی معیارات اور بس کی حالت کی جانچ پڑتال یا تجزیہ کرتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ان ایجنسیوں کو بھی ایسی کمپنیوں کو لائسنس کی منظوری اور فراہمی کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں‌ کہ ان اداروں کو اس بس کا بھی معائنہ کرنا چاہیے تھا جس بس میں میں سفر کر رہا تھا (صادق آباد سے لاہور – 12/07/21) جس میں سیٹ بیلٹ بھی نہیں تھی۔

ڈرائیور کے مطابق بریک فیل ہونا اس حادثے کی وجہ تھی۔ حادثے کے بعد ہماری مدد کے لیے آنے والی دوسری ڈیوو بس کی حالت اور بھی خراب تھی۔ ذیل میں ویڈیو پر ایک نظر ڈالیں۔

سیٹ بیلٹ کی کوئی سہولت نہیں تھی اور سب سے بری بات یہ ہے کہ ڈیووکے عملے کے ایک فرد کا کہنا تھا کہ کوئی بیلٹ لگاتا ہی نہیں بس دکھاوے کےلیے ہوتا ہے اس لیے زحمت گوارا ہی نہیں کہ بس میں اس کا بندوبست کیا جائے

وہ کہتے ہیں‌ کہ یہ واقعی افسوسناک ہے کہ آپ کوڈیوو کے عملے سے بحث کرنی ہوگی تاکہ وہ سیٹ بیلٹ کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ وہ غصے میں‌ آکر کہتےہیں‌کہ ڈیوو ایکسپریس بس سروس پر شرم کرو!

Leave a reply