ہمارے معاشرے کا انسان ننگا کیوں؟
میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ معاشرے میں جنسِ مخالف کا تجسس ختم کردیا جائے یا نکاح کو آسان کر دیا جائے۔ نہیں تو ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے جو خلاف توقعات ہوں گے. اسطرح مسائل بڑھیں گے.
پچھلے کالم کے نتیجہ خیز جملوں کو شامل کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ کل اسلام آباد کی ایک شاہراہ پر بانیِ پاکستان،قائداعظم محمد علی کی ایک تصویر لگی ہوئی ہے، اس تصویر کے ساتھ قائداعظم کا سنہری قول”ایمان، اتحاد اور تنظیم”درج ہے۔اس شاہراہ کا نام "اسلام آباد ایکسپریس وے” ہے، اسے عرفِ عام میں "لاہور جی ٹی روڈ” کے نام سے پکارا جاتا ہے. معاملہ یہ ہے کہ ایک نوجوان جوڑے نے نیم برہنہ حالت میں قائداعظم کی تصویر کے ساتھ تصویریں بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی ہیں. جس کو دیکھ کر پاکستانی عوام دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی ہے.
پہلے گروہ مشتعل ہے کہ اس جوڑے کو جرات کیسے ہوئی کہ بانی پاکستان کی تصویر کا ساتھ جا کر نیم عریانی میں تصویریں بنائے. اس طرح انہوں نے پاکستان عوام کی دل آزاری کی ہے اور چیلنج بھی کیا ہے کہ ہم کبھی بھی اور کہیں بھی جو کرنا چاہیں، جس طرح کرنا چاہیں کرسکتے ہیں. صاف ظاہر ہورہا ہے کہ ایک خاص خیالات کا حامل طبقہ اس انداز کو پھیلانے کا محرک ہے. یہ کام صرف پاکستانیوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے کیے جارہے ہیں. ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان مکروہ حرکات کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
ایسے کاموں میں استعمال ہونے والے یہ سوچ کر شامل ہوتے ہیں کہ جدید دور ہے تو اسکے تقاضے بھی جدید ہیں جو جدید انداز میں پورے کر کے تشہیر کا ذریعہ بنیں گے. پسند اور نا پسند کرنے والے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں. جنہوں نے پسند کرلیا تو انکا شکریہ ادا کردیں گے اور جنہوں نے ناپسند کیا تو انہیں اس سے کوئ فرق نہیں پڑے گا. یہ رویہ انتہاہی گھٹیا ہے جس سے صرف اپنی پہچان اکارت ہوگی. بصد افسوس ہمارے پڑھے لکھے آزاد خیال لوگ اس رویہ کو اپنانے میں دن رات محنت کررہے ہیں.
اسی طرح گزشتہ ماہ ایک ستائیس سالہ لڑکی کا بے دردی سے قتل کیا گیا. اس قتل کی وجوہات بھی کچھ ایسی ہی ہیں. قتل کرنے والا نوجوان امریکہ کا پڑھا لکھا ہے. مقتولہ سابق سفیر کی بیٹی ہے. دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں. پھر بھی جنسی زیادتی ہوئی اور جنسی زیادتی کے بعد قتل ہوا. قتل بھی ایسا جس میں مقتولہ کا سر دھڑسے جدا کردیا جاتا ہے. جسم پر آلہ قتل کے بے دردی سے وار کیے جاتے ہیں. یہ جوڑا "میرا جسم،میری مرضی” کا خوشہ چیں تھا. مہان حیرت ہے پھر بھی یہ واقعہ رونما ہوگیا. مدرسے کا مولوی بھی جب اسی قسم کا جرم سرانجام دیتا ہے. تب تو مسجد، مذہہبی طبقے کو خوب نشانہ بنایا جاتا ہے. اب تو یہ جرم آزاد خیالوں کی طرف سے ہوا ہے؟
دوہرے معیار پر سوال تو بنتا ہے نہ؟
جان لیں جرم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے. مجرم کسی مذہب کے اصول و ضوابط کو نہیں دیکھتا، وہ بس جرم کر دیتا ہے. اگر وہ اپنے مذہب کو دیکھتا، پیروی کرتا تو جرم ہی نا کرتا. اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایک دوسرے کی بھلائ، خیر کی دعوے دار تحریکوں کے حقیقی مقاصد وہ نہیں جو نظر آتے ہیں بلکہ اور ہیں جنہیں اوور کوٹ پہنایا ہوا ہے.
بقول غالب
ہیں کواکب کچھ،نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں یہ بازی گر،دھوکا کھلا
@its_usamaislam