پیسے کو سلام تحریر: محمد احسن گوندل

0
73

شام ہوتے ہی شیخ صاحب کی بیٹھک میں گاؤں کے تقریباً تمام بڑے بڑے چوہدری بیٹھے ہوتے تھے۔کسی نے کوئی بھی کام شروع کرنا ہوتا نیا گھر بنانے سے لیکر بچوں کی شادی تک سب شیخ صاحب کے مشورے سے ہوتا۔ ان کو ایک بار اطلاع کرنی ہوتی یہ سب سامان ان کے گھر پہنچا دیتے چاہے کسی کے بچے کی شادی ہو یا کسی کا کوئی فوت ہوا ہو۔ یہ ایک قسم کے ان کے فنانس منسٹر لگتے تھے۔
گاوں میں کسی خوشی یا غمی پر یہ خود لوگوں کے گھروں میں پہنچ جاتے اور ہر طرح کی ضروریات پوری کرتے۔
کسی بھی محفل میں شیخ صاحب کے آنے پر ان کو خصوصی پروٹوکول دیا جاتا آؤ بگھت کی جاتی۔
ان کے گھر اکثر ان کے رشتہ دار بچوں سمیت مہینوں رہتے تھے۔
یہ پیشے کے لحاظ سے ایک بیوپاری تھے اپنے اور آس پاس والے گاؤں سے گندم اور مونجی (دھان) خریدتے تھے اور آگے منڈی میں بیچ دیتے ساتھ میں ایک بہت بڑی کریانے کی دوکان بھی تھی۔ پورے گاؤں کے لوگ اپنی خوشی غمی میں ان کی دوکان سے کھانے پینے کا تمام سامان لے جاتے اور پھر سال سال بعد انکو رقم لوٹاتے۔
یہ اتنے پڑھے لکھے نہیں تھے اور بچے بھی ابھی چھوٹے تھے ان کا کاروبار اتنا بڑھ چکا تھا کہ انکے لیے اکیلے سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا۔ دو تین بڑے چوہدری جو ان کے زیادہ قریب تھے وہ ان کے کاروبار میں صلاح مشورے دینے لگے اور ہر اسی کام کا مشورہ دیتے جو ان کے اپنے مفاد میں ہوتا۔ کم پڑھے لکھے ہونے کیوجہ سے یہ احساب کتاب میں مار کھا گئے اور آستہ آہستہ یہ گھاٹے میں جانے لگے اور پھر ایک وقت آیا کہ وہ بہت بڑی رقم کے قرض دار ہوگئے۔
یہ بات بہت جلد پورے گاؤں میں پھیل گئی اور سب سے پہلے جو ان کے زیادہ قریبی تھے جن پر شیخ صاحب کے بہت سے احسانات تھے انہی لوگوں نے اپنی فصلیں انکو بیچنے سے انکار کر دیا پھر دیکھتے ہی دیکھتے کوئی بھی ان کو اپنی فصل بیچنے کو تیار نہ ہوا۔یوں انکا پورا کاروبار بیٹھ گیا۔
ان سب نے ایک دم سے ایسے آنکھیں پھیری کہ جیسے شیخ صاحب کو جانتے ہی نہ ہوں ۔انہی چوہدریوں نے انکوں اتنا تنگ کیا کہ اپنے بچے چھوڑ کر گاؤں سے جانا پڑا۔
وہ جنکے بچوں کی فیسیں بھرتے تھے پھر انکی شادیوں کا خرچہ اٹھاتے تھے انہوں نے ان کے بچوں پر بھی ترس نہیں کھایا اور شیخ صاحب کے بچوں کو گھیسٹتے ہوئے گھر سے باہر نکال کر قبضہ کر لیا۔ ان کے بچے اب اسی اپنے گھر کے سامنے گودام میں رہتے ہیں۔
اب دور کے رشتے دار تو الگ بات ان کے سگے بھی ان کے گھر کی طرف منہ نہی کرتے۔ میری ان سے ایک بار بس میں ملاقات ہوئی میں نے ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ذکر کیا تو کہنے لگے بس پیسے کو ہی سلام ہے پیسا تھا تو رشتے دار بھی بہت تھے اور صلاح گیر بھی اب در بدر دکھے کھا رہا ہوں کوئی پوچھتا تک نہیں۔
یہی حقیقت ہے اس دنیا کی لوگ آج کل کسی کو اہمیت اسکی مالی حثیت دیکھ کر دیتے ہیں جس کے پاس پیسہ سب اسی کے ہیں۔
میری دعا ہے اللہ شیخ صاحب پر اپنا خصوصی کرم فرمائے اور انکی مشکلیں آسان فرمائے۔
آمین ثم آمین

@ahsangondalsa

Leave a reply