پاک انگلینڈ مقابلہ: ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کے لیے پیشن گوئی — سیدرا صدف

3 سال قبل
تحریر کَردَہ

منیجیمنٹ میں "صحیح آدمی, صحیح کام اور صحیح وقت پر” کو بہت اہمیت حاصل ہے۔۔بدقسمتی سے پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم منیجیمنٹ ہمیشہ اس اہم اصول کو نظر انداز کرتی آئی ہے۔۔۔یہ ہی وجہ ہے اہم ٹورنمنٹ سر پر ہوتا ہے اور ٹیم کمبینیشن سردرد بنا ہوتا ہے۔۔۔

کوچنگ اسٹاف ہو یا کھلاڑیوں کی سلیکشن کوئی منطق نظر نہیں آتی ہے۔۔انٹرنیشنل لیول پر کوچز نہیں مینٹور کی ضرورت ہوتی ہے جو ذہن سازی کرے معمولی خامیاں دور کرے۔۔۔کھلاڑیوں کی کوچنگ ڈومیسٹک لیول پر ہونی چاہیے۔۔اکیڈمیز میں کھلاڑیوں کے نقائص دور ہونے چاہیے۔۔قومی ٹیم میں نقائص سے بھرپور کھلاڑی آنا ڈومیسٹک سسٹم کی افادیت پر سوالیہ نشان ہے۔۔

ایشیا کپ اور حالیہ انگلستان سیریز میں پاکستان ٹیم کی کئی کمزوریاں سامنے آئیں۔۔۔مڈل آرڈر کی ناکامی اس وقت انتہائی تشویش کا باعث ہے۔لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا صحیح مڈل آرڈر بلےباز دستیاب ہیں۔۔

افتخار احمد اور آصف علی بطور مستند بلے باز مڈل آرڈر میں کھیلتے ہیں۔افتخار ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی کے بعد قومی ٹیم میں آئے لیکن وہ انڈرپرفارم کر رہے ہیں۔ایسا ظاہر ہوتا ہے جیسے ٹیم منیجیمنٹ انکو نچرل کھیل سے دور رکھے ہے۔۔۔دوسری جانب آصف علی اپنی کارکردگی سے ثابت کر چکے ہیں کہ وہ ایک مستند بلے باز کی جگہ روکے محض دو اوورز کے بلے باز ہیں۔۔۔ایسا خطرہ پاکستان میں ہی لیا جاتا ہے کہ ایک مستند مڈل آرڈر بلے باز کی جگہ تین ,چار چھکوں کی آس پر دے رکھی ہے۔۔

شاداب خان اور نواز کا بیٹنگ لائن میں کردار طے نہیں ہے۔۔دونوں باصلاحیت آلراؤنڈر ہیں جو باآسانی مڈل آرڈر میں عمدہ کردار نبھا سکتے ہیں۔۔

ٹاپ آرڈر بیٹنگ رضوان اور بابر کی موجودگی میں مستحکم ہے۔۔البتہ ون ڈاؤن پوزیشن پر سوالیہ نشان ضرور ہے۔۔شان مسعود, فخر زمان کی غیر موجودگی کو کیش کرنے میں ناکام رہے اور اطلاعات کے مطابق ٹیم منیجیمنٹ اور کوچ کی خواہش ہے کہ فخر زمان ٹیم میں کھیلیں۔۔۔فخر زمان پندرہ سے زائد ٹی ٹوئینٹی میچز میں ناکام ہونے کے بعد ڈراپ ہونے کی بجائے ون ڈاؤن آئے تھے۔۔۔ون ڈاؤن پوزیشن پر بھی انکی کارکردگی غیر تسلی بخش ہے۔۔لیکن اگر وہ صحتیاب ہیں نیز کپتان انکو پلئینگ الیون کا حصہ چاہتے ہیں تو نیوزی لینڈ سیریز میں رضوان کے ساتھ بطور اوپنر ٹرائی کر لینے میں حرج نہیں ہے۔۔۔کسی بھی ٹورنمنٹ کے دوران کمبینیشن بدلنا درست نہیں ہوتا ہے لہذا جو حتمی تبدیلیاں کرنے ہیں وہ تین ملکی سیریز میں کر لینی چاہیے۔۔۔

شاہین شاہ آفریدی کی غیر موجودگی میں حارث رؤف نے باؤلنگ کا بوجھ اچھا اٹھایا لیکن کرکٹ ٹیم گیم ہے۔۔ایک کھلاڑی کی اچھی یا بری کارکردگی نتائج پر اثر ڈالتی ہے۔۔۔شاہ نواز دھانی, محمد حسنین اور وسیم جونیئر ورلڈکپ اسکوڈ کا حصہ ہیں لیکن تینوں پریشر سچوائیشن میں باؤلنگ کرانے کا حوصلہ نہیں رکھتے ہیں۔۔تینوں کی ناتجربہ کاری عیاں ہے۔۔۔یہ تین بالر اس وقت ہائی رسک ہیں۔۔ اگر مددگار کنڈیشنز مل گئی تو کارکردگی دیکھا سکتے ہیں۔۔۔اسپن باؤلنگ ڈیپارٹمنٹ مجموعی طور پر اچھا ہے۔۔۔۔عماد وسیم کا اسکوڈ میں اسے اور مضبوط کر دیتا۔۔۔۔پاکستان پیس اٹیک شاہین, نسیم اور حارث کے ساتھ بہترین نتائج دے سکتا ہے۔۔۔

بدقسمتی سے اس وقت اسکواڈ میں زیادہ ورائیٹی موجود نہیں ہے۔۔ خوشدل شاہ سے باؤلنگ ہی نہیں کرانی تو انکو بطور آلراؤنڈر منتخب کرنے کی کوئی منطق نہیں ہے۔۔وہ بنا باؤلنگ کسی کا متبادل نہیں ہیں۔۔عامر جمال کو بنام انگلستان سات میچز کھیلا کر چیک کیا جا سکتا تھا ٹیم کو اس وقت ایک تیز گیند باز آلراؤنڈر کی ضرورت ہے۔۔۔۔انگلستان کی سیریز ورلڈکپ کی تیاری کے سلسلے میں اہم تھی۔۔نیوزی لینڈ میں شیڈول تین ملکی سیریز میں اس الیون کو اترنا چاہیے تھا جس کے ساتھ ورلڈکپ کھیلا جائے گا لیکن بدقسمتی سے ابھی تک یہ طے نہیں ہے کہ کونسا کھلاڑی ,کب اور کدھر کھیلے گا۔۔۔۔

اصولاً ٹی ٹوئینٹی اسکواڈ میں پانچ مستند بلے باز جو کہ ٹاپ اور مڈل آرڈر کے نمبرز پورے کریں, چار آلراؤنڈر تیز و اسپنر,چار مستند تیز گیند باز ,دو وکٹ کیپر بلے باز ہونے چاہیے۔۔

ٹیم پاکستان ہمیشہ Right Person, Right Job,Right Time کے اصول کے خلاف کھیلی ہے۔۔۔کبھی کبھار ملنی والی کامیابیوں نے اس اصول کو سمجھنے کی طرف کبھی راغب نہیں کیا ہے۔۔عین ممکن ہے کہ اسکواڈ میں موجود کچھ باصلاحیت کھلاڑیوں کی کاوش سے ٹیم ورلڈکپ میں اچھی کارکردگی دیکھانے میں کامیاب ہو جائے لیکن مارڈن ڈے کرکٹ کے اصولوں کو اپنائے بغیر تسلسل لانا مشکل ہے۔۔

Latest from بلاگ