عمران خان کی غیر ملکی دوست؛ نیٹ فلکس نے چائلڈ سیکس اسمگلر خاتون پر دستاویزی فلم جاری کردی ہے
عمران خان کی غیر ملکی دوست؛ نیٹ فلکس نے چائلڈ سیکس اسمگلر خاتون پر دستاویزی فلم جاری کردی ہے جس میں اس سب اسمگلنگ وغیرہ کے بارے دکھایا گیا ہے. گیلین میکسویل کو نوعمر لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے تیار کرنے اور ان کی انسانی سمگنگ اور اس کی سہولت کاری کے الزامات میں گزشتہ سال مجرم پایا گیا تھا۔ ان لڑکیوں کا بعد میں امریکی کاروباری شخصیت جیفری ایپسٹین نے جنسی استحصال کیا تھا، جو خود پکڑے جانے کے بعد جیل میں مردہ پائے گئے تھے۔
خیال رہے کہ یہ وہی عورت ہے جس کے پاس پرائیویٹ جیٹ تھا اور عمران خان کی دوست تھی۔ اور یہ وہی ہے جس کے ساتھ وسیم اکرم اور عمران خان جزیرے پر گئے تھے اور عمران خان خاتون کے ساتھ اندر گئے اور وسیم کو باہر انتظار کرنا پڑا تھا
ساٹھ سالہ میکسویل کو چھ میں سے پانچ الزامات پر مجرم پایا گیا تھا جن میں انتہائی سنگین الزامات بھی تھے، جیسے نوعمر بچوں کی جسم فروشی کے لیے انسانی سمگلنگ۔ یہ فیصلہ نیو یارک میں 12 افراد پر مشتمل جیوری نے پانچ دنوں کی مشاورت کے بعد سنایا تھا. ایک عالمی ادارے کی خبر کے مطابق جب ان کے خلاف فیصلہ سنایا جا رہا تھا تو میکسویل کے چہرے کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی اور نہ ہی کوئی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے، انھوں نے اپنے پاس رکھا پانی کا گلاس بھرا اور اس سے دو مرتبہ گھونٹ لیے۔ اس فیصلے کے کچھ ہی دیر بعد، ان کی قانونی ٹیم نے بتایا کہ وہ پہلے ہی اپیل پر کام کر رہے ہیں۔
ٹیریسا ہیلم نے، جو جیفری ایپسٹین پر الزام لگانے والوں میں سے ایک ہیں، ان خواتین کی تعریف کی جنھوں نے مقدمے کے دوران گواہیاں دیں۔ انھوں نے عالمی ادارے کو بتایا کہ ’آج انصاف کی فتح ہوئی ہے۔ میں ان تمام بہادر، نڈر اور انصاف کے لیے کوشاں خواتین کی شکر گزار ہوں جنھوں نے اس نتیجے کے لیے جنگ لڑی۔ جبکہ ’گیلین میکسویل کے پاس آئندہ یہ موقع نہیں ہو گا کہ وہ کسی سے کچھ لے سکیں۔ وہ اب آزادی سے زندگی نہیں گزار پائیں گی۔‘
میکسویل کو درج ذیل جرائم میں سزا۔
نوعمر بچوں کی جسم فروشی کے لیے انسانی سمگلنگ جس کی زیادہ سے زیادہ سزا 40 سال قید ہے۔
نوعمر بچے کی اس نیت سے منتقلی کے انھوں مجرمانہ جنسی عمل سے گزارا جائے گا، جس کی زیادہ سے زیادہ سزا 10 برس قید ہے
نوعمر بچوں کی مجرمانہ جنسی عمل کے لیے منتقلی کی سازش جس کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس قید ہے۔
نوعمر بچوں کو غیرقانونی جنسی عمل کے لیے اکسانے کی سازش جس کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس قید ہے۔
نوعمر بچوں کی جسم فروشی کے لیے سمگلنگ کی سازش، جس کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس قید ہے۔
گیلین میکسویل کون ہیں؟
گیلین میکسویل 1961 میں کرسمس کے دن پیدا ہوئیں۔ ان کی پیدائش کے تین روز بعد ان کے 15 سالہ بھائی مائیکل میکسویل کو ایک حادثہ پیش آیا جس کے بعد وہ اپنی زندگی کے باقی سات سال کوما میں رہے۔ حالانکہ وہ ایک کھاتے پیتے گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کے والد رابرٹ میکسویل ایک نامی گرامی پبلشر تھے۔ تاہم ہر اعتبار سے گلین میکسویل کو ابتدائی سالوں میں جذباتی اعتبار سے نظرانداز کیا جاتا رہا۔ ان کی والدہ بیٹی نے بعد میں اپنی سوانح عمری میں اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ مائیکل کے حادثے کے بعد گیلین کو ان کے والدین کی جانب سے ’بہت کم توجہ دی جاتی تھی۔‘
بیٹی کے مطابق 1965 میں ایک روز ان کی تین سالہ بیٹی گیلین ان کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی: ’ماں، یہاں میں بھی موجود ہوں۔‘ بیٹی کے مطابق گلین اس دوران انوریگسیا کا شکار بھی ہو گئی تھیں۔ ان کے والدین نے یہ کمی پوری کرنے کے لیے اپنی بیٹی کو خوب لاڈ پیار دیا۔ تاہم اس کے باوجود وہ اپنے والد کے غصے اور سزاؤں سے نہ بچ سکیں جو وہ اپنے ہر بچے کو دیا کرتے تھے۔ تاہم وہ جلد ہی ان کے سب سے چہیتی بیٹی بن گئیں۔ بیٹی نے اپنی سوانح عمری میں لکھا کہ ان کی پسندیدہ بیٹی جلد ہی ’بگڑ بھی گئی، یہ بات میں اپنے تمام بچوں میں سے صرف اسی کے بارے میں کہہ سکتی ہوں۔‘
اب جب ان کو مختلف سنگین الزامات میں مجرم پایا گیا ہے تو اس بات کی وجوہات ان کے نظرانداز کیے جانے والے بچپن میں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔ گلین خاصی مشکل خاتون ہیں اور ان کے جرائم کی وجوہات بیان کرنا بہت مشکل ممکن کام ہے۔ حالانکہ ان کی زندگی خاصی حد تک عوامی نظروں کے سامنے گزری ہے لیکن اس کی تفصیلات پھر بھی واضح نہیں ہیں۔ لیکن شاید ان کے بچپن اور والد سے رشتے کے ذریعے ان کے بارے میں مزید تفصیلات ظاہر ہو سکیں۔ بطور کاروباری شخصیت رابرٹ میکسویل کی شہرت ایک بدتمیز شخص کی تھی۔ گھر پر وہ ایک ’سخت گیر والد‘ کے طور پر جانے جاتے تھے جو اپنے بچوں کو برا بھلا کہتے تھے اور انھیں جسمانی اذیت بھی پہنچاتے تھے۔
ان کی سوانح عمری لکھنے والے جان پریسٹن لکھتے ہیں کہ رابرٹ اپنے تمام بچوں سے کھانے کی میز پر سخت سوالات کیا کرتے اور ان سے ان کے مستقبل کے بارے میں پوچھا کرتے اور اگر انھیں ان کی مرضی کا جواب نہ ملتا تو وہ انھیں رونے پر مجبور کر دیتے۔ رابرٹ کے ایک بیٹے ایئن پریٹسن کو بتاتے ہیں کہ ’وہ ہمیں بیلٹ سے مارا کرتے، بیٹیوں کو بھی۔ رابرٹ میکسویل کی طرح ایپسٹین بھی انتہائی مالدار شخص تھے، جو بروکلن کے ایک علاقے میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ رابرٹ میکسویل کی طرح ان کی زندگی کے اختتامی سال ذلت آمیز تھے اور وہ بھی بظاہر خودکشی کر کے ہلاک ہوئے۔
گلین کا ایپسٹین کے ساتھ رشتہ دونوں کے لیے ہی فائدہ مند تھا۔ وہ انھیں اپنے امیر اور طاقتور دوستوں سے ملواتی تھیں اور اس کے بدلے وہ ان کے پرتعیش طرز زندگی کے لیے رقوم فراہم کرتے تھے۔ ان دونوں کا رشتہ خاصا قریبی تھا اور مقدمے کے دوران دونوں کی ہم آہنگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وکلا نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ میکسویل ’جب ایپسٹین سے ملیں تو وہ بہت زیادہ مالدار نہیں تھیں۔