پاکستان امریکا و یورپ کے مقابلے کورونا سے زیادہ محفوظ‌ کیوں ، اہم رپورٹ

باغی ٹی وی رپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت بھارت اور دیگر افریقی ممالک میں‌کرونا وائرس نے اس شدت سے حملہ نہیں‌کیا جو شدت یورپ اور امریکا میں‌ دیکھی گئی ہے، تجزیے کے مطابق قدرتی طورپر یہ ممالک دنیا کے ایسے خطے میں‌واقع ہیں جہاں کورونا کے اثرات فطری طور پر کم ہیں یا یہاں کے باشندے ملیریا کی وجہ سے متاثر چکے ہیں جس کے علاج اور ویکسین نے ان کے اندر کورونا کے خلاف ایسی مدافعت پیدا کردی ہے جو کورونا کو زیادہ اثر دکھانے نہیں‌دیتی . برصغیر یعنی پاک و بھارت اور افریقی ممالک میں کورونا متاثرین کی تعداد اس قدر زیادہ نہیں ہے جیسا کہ یورپ اور امریکہ کے اندر ہے .اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ پاک بھارت اور افریقی ممالک میں ملیریا زیادہ ہے اور ملیریا سے متاثرہ تمام ممالک میں کورونا کے مقابلے قوت مدافعت زیادہ ہے اور اسی وجہ سے اموات کی شرح بھی کم ہے۔ ایک یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ کلوروکین بطور علاج کام کر رہی ہے، ان ممالک میں‌ ملیریا کے لیے کلوروکین کااستعمال ہوتا ہے اور اس کلوروکین نے اپنا اثر دکھاتےہوئے ایشیائی اور افریقی ممالک میں کورونا وائرس کے اثر کو کم کردیا ہے .درج ذیل نقشے سے انداز لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں ملیریا زیادہ ہے وہاں کورونا کے اثرات کم ہیں.

پاکستان کا پہلا کیس 26 فروری کو سامنے آیااور 26 مارچ تک 1130کیسز ہو چکے ہیں.
اسی طرح اموات اب تک ہیں 9 ہوئی ہیں سو اس طرح اموات کی شرح 7 فیصد ہے. اسی طرح ایک عام انفلوئنزا کی وبا میں اموات کی شرح 1فیصد ہے۔
پاکستان میں اب تک کورونا مریضوں کی اموات اتنی کم کیوں ہے جبکہ یہ شرح اموات چین کے مقابلے 3.5 فیصد کم ہے۔ اٹلی سے 9فیصد؛ اسپین میں 7فیصد کم ہے ، پاکستان کے اندر دیگر ممالک کے مقابلے کرونا سے کم متاثر ہونے اور شرح اموات بھی کم ہونے پر ہم کچھ مفروضات قائم کرسکتےہیں.جیسے
1. ملیریا کے دباؤ نے کورونا کی شدت اور اموات کی شرح کو کم کیا۔
2. مغربی کیسز کے مقابلے میں پاکستان میں کورونا کےکیسز کم عمر افراد میں پائے جاتے ہیں.
3.مغربی اور سرد علاقوں میں ماحولیاتی اثر و رسوخ بہت اہم ہے پاکستان اور بھارت میں موسم کم سرد ہے .
4.پاک بھارت دنیا کے اس حصے میں واقع ہیں جہاں فطری طور پر قوت مدافعت بار بار فلو کے انفیکشن کی وجہ کورونا کے خلاف زیادہ ہوگئی ہے.اس نے ویکسین کی طرح کام کیا ہے.
5. پاک بھارت اور ملیریا زدہ علاقوں میں ریکوری اور بازیابی کی شرح بہتر ہے
ان مفروضات کی بنیاد پر ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یہاں خطرہ زیادہ نہیں ہے اور قدرت نے ہمیں جیو گرافک طور پر قدرے محفوظ خطے میں‌ پیدا کیا ہے.

واضح رہے کہ ایشیا سے شروع ہونے والی وبا کورونا وائرس کا نیا مرکز امریکا بن چکا ہے جہاں 27 مارچ کی صبح تک مریضوں کی تعداد 85 ہزار سے زائد ہو چکی تھی۔

امریکا سے قبل کورونا وائرس کا مرکز یورپ تھا اور یورپ اب بھی اس وبا کا دوسرا بڑا مرکز ہے، جہاں کورونا کے مجموعی کیسز امریکا اور ایشیا سے زیادہ ہیں۔

عالمی ادارہ صحت، امریکی صحت سے متعلق اداروں اور دیگر ممالک کی حکومتوں کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق کورونا کے کیسز کے ہر وقت اپڈیٹ رہنے والے آن لائن میپ کے مطابق دنیا بھر میں کورونا وائرس کے 5 لاکھ 37 ہزار سے زائد کیسز میں سے تین لاکھ سے زائد کیسز یورپ میں رپورٹ ہوئے۔

یورپ میں سب سے زیادہ کیسز اٹلی میں 81 ہزار کے قریب، دوسرے نمبر پر اسپین میں 58 ہزار کے قریب، تیسرے نمبر پر جرمنی 47 ہزار سے زائد ، چوتھے نمبر پر فرانس 30 ہزار کے قریب اور پانچویں نمبر پر برطانیہ 12 ہزار کے قریب ہیں

اسی طرح کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی 27 مارچ کی صبح تک مجموعی ہلاکتوں 24 ہزار 110 میں سے نصف سے زیادہ ہلاکتیں یورپ میں ہوچکی تھیں، جہاں ہلاکتوں کی تعداد 18 ہزار تک ہے۔

اعداد و شمار کے حساب سے اس وقت بھی یورپ ہی کورونا وائرس کا مرکز ہے اور مجموعی طور پر یورپ کے ایک درجن سے کم ممالک ہی اس وبا سے زیادہ متاثر ہیں۔

تاہم اعداد و شمار سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ خطرے سے دوچار ایک درجن یورپی ممالک کے مقابلے امریکا کورونا وائرس کا بڑا اور نیا مرکز ہے، جہاں تین دن میں کورونا کے 35 ہزار سے زائد نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکا میں مزید تیزی سے کیس سامنے آئیں اور اس کی ایک وجہ امریکا میں ٹیسٹ کے عمل کو تیز کیا جانا بھی ہے، جہاں گزشتہ ہفتے سے کورونا کے ٹیسٹ میں خاطر خواہ تیزی دیکھی گئی، جس کے بعد ہی نئے کیسز بھی تیزی سے آنا شروع ہوئے۔

Shares: