امریکہ افغانستان سے چلا تو گیا ہےلیکن وہ ابھی بھی افغانستان کے معاملات سے خود کو بے دخل کرنے پر کسی صورت آمادہ نہیں ہے۔ اس کی سادہ سی وجہ اس خطے میں اس کا Interest
ہے کیونکہ امریکہ کے سپر پاور ٹائٹل کے لئے جو سب سے بڑا خطرہ سر اٹھا رہا ہے اس کا تعلق بھی اسی خطے سے ہے۔ اور اس خطرے کا نام چین ہے جسے کچلنے کے لئے اس وقت امریکہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور اس جنون میں امریکہ کی حالت اس وقت کسی خونخوار جانور سے کم نہیں ہے۔چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کی وجہ سے ہی امریکہ میں افغانستان کے معاملے کو لیکر کافی مختلف طرح کی آراء گردش کرتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے انخلا کے معاملے پر امریکی سینیٹ میں فوجی قیادت اور وزیر دفاع کو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکی سینیٹ میں کیا کاروائی ہوئی؟ وہ کونسی شخصیات ہیں جو یہ سمجھتی ہیں کہ افغانستان سے تمام فوجی نکالنا، جو بائیڈن کا غلط فیصلہ ہے؟افغانستان کے معاملے پر تین اہم ممالک کیا سوچ رہے ہیں؟پاکستان پر امریکہ کو غصہ کیوں ہے کیوں وہ پاکستان کر پابندیاں لگانے کی بات کر رہا ہے؟آپ کو یاد ہوگا کہ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے دوران 26اگست کو کابل ایئرپورٹ کے گیٹ پر ایک خودکش حملہ ہوا تھا جی ہاں وہ کابل ائیر پورٹ جو اس وقت امریکی فوج کی زیر نگرانی تھا اس حملے میں 182 افراد ہلاک ہوئے تھے ان ہلاک ہونے والوں میں
169افغان شہری جبکہ 13 امریکی فوجی شامل تھے۔جس کے بعد اب امریکی سینیٹ کمیٹی برائے مسلح افواج نے چھ گھنٹے تک افغانستان سے امریکی انخلا اور کابل ایئرپورٹ پر افراتفری کے بارے میں امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرلMark Alexander Milleyامریکہ کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل Kenneth Franklin McKenzieاور وزیر دفاعLloyd James Austinسے کافی سخت سوالات کئے گئے۔ لیکن آپ کو یہ جان کرحیرت ہوگی کہ اپنے جوابات میں Mark MilleyاورKenneth McKenzieنے واضح طور پر یہ بتایا کہ انھوں نے افغانستان میں 2500امریکی فوجی برقرار رکھنے کی سفارش کی تھی۔ کیونکہ وہ 2020 کے آخر میں اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ افغانستان سے فوجیوں کے تیز تر انخلا سے افغانستان کی حکومت ختم ہو سکتی ہے۔ البتہ انھیں یہ امید نہیں تھی کہ یہ سب اتنی جلدی ہو جائے گا۔جبکہ صدر جو بائیڈن نے 19 اگست کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ انھیں یاد نہیں کہ کسی نے انھیں ایسا مشورہ دیا ہو۔اور وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹریJen Psakiکا بھی بیان سامنے آیا کہ صدر جوبائیڈن کو افغانستان سے متعلق تقسیم شدہ رائے ملی تھی۔ لیکن بالاخر فیصلہ کمانڈر انچیف کا ہوتا ہے اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ 20 سالہ جنگ ختم کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ صدر بائیڈن جوائنٹ چیفس اور فوج کے مخلصانہ مشوروں کی قدر کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمیشہ اس سے اتفاق کریں۔
جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ خود امریکی فوجی افسران یہ بات جانتے تھے کہ افغانستان سے نکلنے کے بعد وہاں سے حکومت ختم ہو جائے گی اور طالبان قبضہ کرلیں گے لیکن صدر جوبائیڈن نے ان کی بات کو نظر انداز کرکے خود فیصلہ لیا تو اس سب کے بعد وہ پاکستان پر الزام کیسے لگا سکتے ہیں کہ یہ سب پاکستان کی وجہ سے ہوا۔پاکستان وہ ملک ہے جو کبھی بھی براہ راست افغانستان میں ہونے والی جنگ کا حصہ نہیں رہا لیکن نقصان سب سے زیادہ پاکستان کا ہی ہوا۔ ہم نے اس جنگ کی وجہ سے 80 ہزار جانیں قربان کیں اور اپنی معیشت تک تباہ کروائی۔ اس کے علاوہ امریکہ جو ہمارا اتحادی ہونے کا دعوی کرتا تھا اس نے ہمارے اوپر 450 سے زائد ڈرون حملے کیے اور ساتھ ساتھ Do more کا مطالبہ بھی چلتا رہا۔ اور اب ایک بار پھر امریکہ نے اپنی پرانی روش برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کا ہی مکو ٹھپنے کی تیاریاں پکڑ لیں ہیں۔ امریکی سینیٹ میں 22ریپبلکن سینیٹرز کی جانب سے ایک بل پیش کیا گیا جس کا نام ہےAfghanistan counter terrorism, over-sight and accountability actاس بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکی حکام جائزہ لیں کہ 2001سے لے کر 2020 کے دوران پاکستان سمیت طالبان کو مدد فراہم کرنے والے ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کا کردار کیا تھا جس کا نتیجہ افعانستان کی حکومت کے خاتمے کی صورت میں نکلا اور اس میں طالبان کو محفوظ پناہ گاہوں، مالی اور انٹیلیجنس مدد، طبی ساز و سامان، تربیت اور تکنیکی یا سٹریٹجک رہنمائی کا معاملہ بھی شامل ہو۔اس کے علاوہ بل میں طالبان کے خلاف مقابلے کے لیے اور طالبان کے پاس امریکی ساز و سامان اور اسلحے کو واپس حاصل کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔ امریکی انتظامیہ سے ان معاملات کی تحقیقات کے بعد 180دن میں پہلی رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔ اور طالبان کا ساتھ دینے والے عناصر پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔اس معاملے میں دو چیزیں بہت اہم ہیں ایک تو یہ کہ پاکستان کا نام خاص طور پر اس بل میں شامل کیا گیا ہے یعنی کہ یہ کوئی اشارہ یا تنبیہہ نہیں ہے بلکہ ڈائریکٹ پاکستان کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔اور دوسرا اہم پوائنٹ یہ ہے کہ امریکی سینیٹ میں اس وقت ڈیموکریٹک اور رپبلکن سینیٹرز کی تعداد برابر ہے دونوں کے5050ممبران ہیں ایسی صورت میں کسی بل کو پیش کرنے اور اس کو منظور کرانے کے لیے اکثریت نہ ہونے کی صورت میں نائب صدر کملا ہیرس کا حتمی ووٹ استعمال کیا جائے گا۔ اور ان کا ووٹ پاکستان کی حمایت میں آنا تو بہت مشکل ہے۔
اب حیرت تو اس چیز پر ہے کہ امریکہ جس نے افغانستان میں خود آنے کا فیصلہ کیا۔پھر وہاں اربوں ڈالر بھی خرچ کئے۔افغان حکومت بھی امریکہ کی بنائی ہوئی تھی۔افغانستان میں فوجیوں کی بھرتیاں اور ٹریننگ بھی امریکہ نے کی جو ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔دوسری طرف سب جانتے ہیں کہ پاکستان سے طالبان کی قیادت کو رہا کرنے کا مطالبہ کس کا تھا؟ دوحا میں طالبان سے معاہدہ کس نے کیا اور ان کی واشنگٹن ڈی سی میں میزبانی کس نے کی؟جب یہ سب کچھ امریکہ کرتا رہا ہے تو قصور پاکستان کا کیسے ہو گیا۔ لیکن میں آپ کو بتاوں کہ اس بل کو پیش کرنے کی دو وجوہات ہیں۔ایک تو امریکہ کی لوکل سیاست ہے کیونکہ اگلے ایک سال میں امریکہ کے Mid term elections ہونے ہیں اور رپبلکن پارٹی نے ان الیکشنز کا سوچ کر ہی Popularity
حاصل کرنے اور سیاست کھیلنے کے لئے یہ بل پیش کیا ہے۔اور دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ اس بل کو وجہ بناتے ہوئے پاکستان کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔اس بات کے بہت زیادہ چانسز ہیں کہ جو بائیڈن انتظامیہ پاکستان کو یہ کہے کہ یہ بل رپبلکن پارٹی نے پیش کیا ہے اس میں ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن آپ بتائیں کہ آپ ہمیں کیا دے سکتے ہیں تاکہ ہم اس کی مدد سے اس بل کو روک سکیں۔اب بات آتی ہے چین کی امریکہ چین کو اپنا حریف سمجھتا ہے اور کیونکہ پاکستان کی چین کے ساتھ دوستی اور یہاں پر جاری سی پیک کی وجہ سے امریکہ کو ویسے ہی پاکستان اور چین پر بہت غصہ ہے۔ اور اپنی ناکامی کی وجہ سے امریکہ بالکل بوکھلایا ہوا ہے کہ کیسے اس کا سارا کا سارا الزام کسی اور ملک پر ڈال دیا جائے اس لئے اس معاملے میں پاکستان کا انتخاب کیا گیا ہے کہ ایسے ایک تیر سے دو شکار ہو جائیں گے پاکستان بھی اور چین بھی۔ پاکستان کو ویسے بھی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ معیشت کا برا حال ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوار الگ سر پر لٹک رہی ہے اور ایسی صورتحال میں اگر امریکہ پاکستان پر پابندیاں لگاتا ہے تو سوچ لیں کہ حالات کئی گنا زیادہ خراب ہو سکتے ہیں اور جتنے حالات خراب ہوں گے سی پیک پر کام اتنا ہی متاثر ہو گا اور امریکہ کو چین کا راستہ روکنے میں اتنی ہی آسانی ہو گی۔لیکن پاکستان اور چین کو بھی یہ بات بہت اچھے سے سمجھ آ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے معاملے پر دونوں ممالک نے بہت محتاط رویہ اپنایا ہوا ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے اس حوالے سے موقف اپنایا ہے کہ اگر طالبان نے شمولیتی حکومت قائم نہ کی تو آنے والے دنوں میں خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔ اس کا نتیجہ ایک غیر مستحکم اور انتشار کا شکار افغانستان کی صورت میں نکلے گا۔اور چینی وزارت خارجہ نے بھی بیان دیا ہے کہ چین امید کرتا ہے کہ افغانستان میں تمام دھڑے مل کر اپنی عوام اور بین الاقوامی برادری کی امنگوں کے مطابق فیصلے کریں گے اور ایک شمولیتی سیاسی ڈھانچہ کھڑا کریں گے۔پاکستان اور چین کے علاوہ روس کے وزیر خارجہ نے بھی اسی سے ملتا جلتا بیان دیا ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ طالبان نے جو وعدے عوامی طور پر کیے ہیں انھیں پورا کیا جائے۔ ہماری پہلی ترجیح یہی ہے۔یہ تینوں وہ ممالک ہیں جنھوں نے دوحہ امن مذاکرات اور طالبان کی عبوری حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے اور افغانستان میں طالبان کی موجودہ حکومت کی بظاہر حمایت بھی کی تھی۔
اس کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی اب کی بار خاموش ہیں حالانکہ جب پہلے طالبان کی حکومت آئی تھی تو پاکستان کے ساتھ انھوں نے بھی اس کو تسلیم کیا تھا۔ دراصل اب کی بار یہ سب جانتے ہیں امریکہ اس وقت بہت غصے میں ہے اور ایسی صورت میں اگر ایک مرتبہ طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا تو یہ فیصلہ واپس نہیں لیا جا سکے گا۔ اس کے بعد ان ممالک کو اپنے فیصلے کا دفاع ہی کرنا ہو گا۔ اس لئے ان ممالک کے لیے فی الحال یہی بہتر ہے کہ یہ انتظار کریں۔ خاص طور پر پاکستان کیونکہ چین اور روس تو پھر بھی معاشی طور پر مضبوط ملک ہیں امریکہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن پاکستان امریکہ کے لئے آسان ہدف ہے اور وہ اپنی عزت بچانے اور غصہ اتارنے کے لئے کسی بھی حد تک پاکستان کے خلاف جا سکتا ہے۔