پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات اہم موڑ پر! ،تحریر: شاہد خان

0
57

حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان جاری مذاکرات کامیاب ہوں گے ؟

ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیاں مذاکرات کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کے پروگراموں میں تبصرہ نگار اور تجزیہ نگاروں سے یہ سوال اس لیے بار بار کیا جارہا ہے کیوں کہ اس سے قبل بھی مذاکرات کی کوششیں ہوچکی ہے تاہم ماضی کے مذاکرات کبھی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوئے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس بار مذاکرات جس انداز اور اعلی سطح پر جاری ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

کابل میں طالبان حکومت کے بعد ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے لیے مسلسل کوششیں ہوتی رہی جس میں افغان طالبان ثالثی کا کردار ادا کر رہے تھے تاہم تحریک طالبان کی جانب سے مذاکرات کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ گزشتہ چار ماہ میں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے حملوں میں ہوشربا اضافہ دیکھا گیا وزیرستان اور باجوڑ میں افغانستان سے متصل بارڈر ایریاز میں سیکیورٹی فورسز کو خصوصی نشانہ بنایا گیا۔

سیکیورٹی اور حکومتی حکام نے افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے حوالے سے بار بار افغان حکام سے شکایت کی تاہم حملوں میں کمی نہ آسکی۔

چودہ اپریل کو شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد مبینہ طور پر پاکستان کے فضائیہ نے خوست اور کنڑ میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ پاکستان نے براہ راست افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا ہو۔

ان فضائی حملوں کے بعد افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے مسئلے کو بڑی سنجیدگی سے دیکھنا شروع کیا اور حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کے لیے کوششیں تیز ہوگئی۔ کیوں کہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دھانی طالبان حکومت دنیا بشمول پاکستان کو کراچکی ہے جس کے بعد اب افغان طالبان کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اس مشکل کا کوئی حل نکالیں کیوں کہ اقوام متحدہ کے سیکیورٹی کونسل اس سلسلے میں بار بار اپنی رپورٹوں میں افغان سرزمین ٹی ٹی پی کے جنگجووں کی موجودگی کا ذکر کرچکی ہے۔

پختونخوا اور قبائلی علاقوں کے مختلف عمائدین نے اس سلسلے میں کابل کے کئی دورے کیے جس کے نتیجے میں مذاکرات کے لیے راستہ ہموار ہوا۔

اس بار مذاکرات کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہوگئی ہے کہ دونوں جانبین سے اعلی حکام مذاکرات کا حصہ ہے دونوں جانبین سے اعلی حکام براہ راست مذاکرات میں حصہ لے رہے ہیں جب کہ ثالث کا کردار کرنے والے بھی بڑے اہم رہنما ہے جس میں افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی قابل ذکر ہے۔

میرے اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکراتی عمل کو بڑھانے کے لیے افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے علاؤہ افغان وزیر اعظم ملا حسن اخند اور وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں اور مذاکراتی نشستوں کا باقاعدہ حصہ بنے ہیں۔

مذاکرات کے کامیابی اور پیش رفت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس بار سابقہ فاٹا اور پختونخوا کے مختلف علاقوں کے عمائدین پر مشتمل 133 سے زائد افراد کا جرگہ بھی اس سلسلے میں کردار ادا کررہے ہیں تاکہ قبائلی عمائدین کو نا صرف اعتماد میں لیا جائے بلکہ ان علاقوں میں امن کا پیغام ان کے ذریعے دیا جائے کہ امن و امان کا قیام اور مذاکرات سب کی مشترکہ ضرورت ہے۔

حکومت پاکستان کے ملٹری اور سیاسی حکام اور ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات میں دو کامیاب راؤنڈ کے بعد سیز فائر میں توسیع اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے 53 افراد پر مشتمل قبائلی جرگہ یکم جون کو کابل بھیجا گیا جس میں تمام قبائلی علاقوں کے نمائندوں کے علاؤہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے وزرا بھی شامل ہے۔
یکم جون کو ابتدائی نشست ہوئی جب کہ دوسری نشست 2 جون کی صبح 10 بجے رکھ دی گئی ہے جس کا سب سے اہم موضوع دائمی یا طویل سیز فائر کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔

فاٹا سے پاک فوج کی انخلاء، مالاکنڈ ڈویژن میں نظام العدل کا نفاذ، تمام قیدیوں کی رہائی سیمت، دیگر اہم ایجنڈا پوانٹس ہے جو ٹی ٹی پی کی جانب سے رکھے گئے ہیں جب کہ پاکستان کی جانب سے ٹی ٹی پی سے ہتھیار ڈالنے، آئین کو تسلیم کرنے سمیت دیگر اہم موضوعات مذاکرات کا حصہ ہے جس پر بات چیت ہورہی ہے اب تک کسی بھی ایجنڈا پوائنٹ پر اتفاق نہیں ہوا ہے تاہم امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ بڑے پوائنٹس کا حل نکالا جائے گا کیوں کہ ٹی ٹی پی کے بعض مطالبات ایسے ہے جسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے افغان طالبان کوشاں ہے کہ درمیانی راستہ نکالا جائے۔

Leave a reply