پاکستانی فوج نے پہلی بار 1971 کے بعد بنگلہ دیش کی فوج کے ساتھ ایک تربیتی معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت پاکستان فوج بنگلہ دیشی فوج کو تربیت فراہم کرے گی۔ یہ معاہدہ 2025 کے فروری سے شروع ہو کر بنگلہ دیش کے مختلف کیمپوں میں تربیت کے مراحل پر عمل درآمد کرے گا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کی افواج کے درمیان اس معاہدے کے بعد بھارتی حکام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

معاہدے کے مطابق یہ تربیت بنگلہ دیش کے چار اہم کیمپوں میں کی جائے گی، جن میں فروری 2025 میں مایمن سنگھ کیمپ شامل ہے۔ مایمن سنگھ کیمپ بنگلہ دیشی فوج کے تربیتی اور ڈوکٹرین کمانڈ ہیڈکوارٹر کا مرکز ہے۔ ذرائع کے مطابق، پاکستان کے میجر جنرل رینک کے افسران ممکنہ طور پر بنگلہ دیشی فوج کے افسران کو تربیت فراہم کریں گے۔ پاکستان کی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل ساحر شمشاد مرزا نے بنگلہ دیش کو تربیتی پیشکش کی تھی، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان اس معاہدے پر دستخط ہوئے۔

اس معاہدے نے بھارت میں تشویش کی لہر پیدا کر دی ہے، کیونکہ بھارت کا خیال ہے کہ یہ تربیت بنگلہ دیشی فوج میں بھارت مخالف نظریات کو پروان چڑھا سکتی ہے۔ بنگلہ دیشی فوج میں 1971 کے جنگی تجربات کے بعد بھارتی مخالفت کے رجحانات میں کمی آئی تھی، خاص طور پر اُس وقت سے جب بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت قائم ہوئی تھی اور بنگلہ دیشی افسران کی بھرتی کی پالیسیاں بدل گئیں۔ تاہم، اب یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کی تربیت سے بنگلہ دیشی فوج میں بھارت کے خلاف نظریات دوبارہ ابھر سکتے ہیں۔

پہلا تربیتی ماڈیول جو پاکستان فوج کے زیرِ نگرانی ہوگا، ایک سال تک جاری رہ سکتا ہے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کے بڑھنے کے لیے ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے، لیکن اس سے علاقائی طاقت کے توازن پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یہ معاہدہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دفاعی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ایک کوشش ہے، لیکن اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں بھارت کے لیے نئے چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں۔ بھارت کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے

واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجد بنگلہ دیش سے فرار کے بعد بھارت میں ہی مقیم ہیں۔ بنگلہ دیش میں عبوری حکومت قائم ہے اور بنگلہ دیش پاکستان تعلقات کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس کی دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں

Shares: