پاکستان بننا کیوں ضروری تھا؟

[بقلم سمیرہ حق نواز]

نظریہ پاکستان کو پاکستان کی بنیاد کہا جائے تو بجا نہ ہو گا نظریہ پاکستان دراصل پاکستان کا دوسرا نام ہے جس کا مقصد ایک ایسی ریاست کی تشکیل تھی جس کی بنیاد اسلامی اصولوں کے مطابق ہو نظریہ پاکستان سے مراد وہ عقلی عمل اور آزاد سوچ ہے جس نے قیام پاکستان کی راہیں ہموار کیں اس کی بنیاد مسلمانوں کا علیحدہ تشخص، علیحدہ قومیت اسلامی تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر قائم ہوا پاکستان کے نظریہ کی اساس دین اسلام ہے جو مسلمانوں کی زندگیوں کی تمام شعبوں میں راہنمائی کرتاہے اسلامی نظام قرآن پاک پر استوار ہوا یہی نظام ہمارے پیارے وطن کی بنیاد بنا نظریہ پاکستان ہی وہ نظریہ ہے جس کو قومیت بنا کر مسلمانوں نے الگ مقصد کی تشکیل دی برصغیر میں مسلمان انگریز دور حکومت میں دوسری اقوام کے ساتھ غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے وہ آزاد اور خودمختار حثیت چاہتے تھے انگریزوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد بھی ان کو اپنا مقصد نا کام ہوتا نظر آ رہا تھا مسلمانوں نے بڑی غور وفکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ان کو ایک الگ مسلم مملکت چائیے جہاں مسلمان اکثریت میں ہو اور دین اسلام کو رائج کر سکیں یہ سوچ رفتہ رفتہ مضبوط ہوئی جو قیام پاکستان کی وجہ بنی

دو قومی نظریے سے مراد برصغیر میں دو قومیں آ باد ہیں ایک مسلمان اور دوسری ہندو قوم ان کے رہن سہن، رسم ورواج،زبان ،ثقافت اور سب سے بڑ کر مذہب الگ ہے
قائد اعظم دو قومی نظریے کے سب سے بڑے علمبردار رہے آپ نے نہ صرف آل انڈیا کانگریس کے تاحیات صدر بننے کی پیشکش کو مسترد کیا بلکہ بہت سے بڑے علماء دیوبند اور مسلم نیشنلسٹ کے راہنماؤں کی مخالفت بھی مول لی مگر دو قومی نظریے کی صداقت پر کوئی آنچ نہ آنے دی آپ نے پاکستان کا مقدمہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر لڑا۔ 1930 خطبہ آلہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے علامہ اقبال نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان میں الگ مملکت کی پیش گوئی کی دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے دوران آپ نے قائد اعظم سے کئی ملاقاتیں کی جن کا مقصد دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانان ہند کے لیے الگ مملکت کا کوئی حل سوچنا تھا 1936۔1938 میں آپ نے قائد کو کئی مقطوبات بھیجے جن میں دو قومی نظریے کا عکس صاف نظر آتا ہے ، حضرت مجدد الف ثانی،شاہ ولی اللہ، سر سید احمد خان جیسی عظیم ہستیوں نے اس پودے کی آبیاری کی
برصغیر پاک و ہند میں مسلمان ایک حقیر قوم جانی جاتی تھی جن کو کوئی سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی حقوق حاصل نہ تھے وہ ظلم و جبر کے سائے میں سانس لے رہے تھے زندگیوں کو کھٹن ترین مسائل کا سامنا تھا مسلمان برصغیر میں بلکل مفلوج قوم بن کر رہ گئی جن کے ہر طرح کے حقوق سلب کر لیے گئے ووٹ ڈالنے کا حق بھی چھین لیا گیا مسلمانوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دیئے گئے ان کی جائیداد یں ضبط کر لی گئیں اور کبھی انگریزوں کو بطور انعام دے دی جاتیں مسلمان ہر طرح کی پابندیوں میں جھکڑ کر رہ گئے برصغیر میں ہندوانہ رسم و رواج رائج کر دیئے گئے مسلمانوں کو عبادات سے بھی محروم کر دیا گیا وہ اپنی مرضی سے اسلامی اصولوں سے عبادت سے بھی محروم ہو گئے مسلمانوں کو کسی قسم کا تحفظ حاصل نہیں تھا مسلمان مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئے ان سب مظالم اور جبر کی بنا پر مسلمان کمزور سے کمزور قوم بنتی گئی مسلمانوں کو ابتدائی حقوق بھی حاصل نہ تھے اور اسلامی نظام کا قیام تو بہت دور کی بات مسلمان کسی طور پر بھی محفوظ نہ تھے مسلمانوں کے عہدے مکمل پامالی کی جانب گامزن تھے ان کی جائیدادیں گروی رکھ کر ہڑپ کر لی جاتیں مسلمانوں کو کسی قسم کے اختیارات حاصل نہ تھے مختصر یہ کہ مسلمان معاشی، معاشرتی اور مالی طور پر استحکام کا شکار ہو گئے کاروبار تباہی ہو گئے مسلمان قوم تباہی کے کنارے کھڑے ہو گئے وہ بلکل کمزور اور لاچار قوم بن گئی
یہ حالات مدنظر رکھتے ہوئے قائد اعظم کو مسلمانوں کے حالات قابلِ رحم لگے 1913 میں آخر کار قائد اعظم نے آل انڈیا کانگریس کو چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی مسلمانوں کے لیے الگ وطن کے حصول کے لیے جدو جہد شروع کر دی مسلمانوں کی اتنی سنگین صورتحال دیکھتے ہوئے قائد اعظم نے اپنی صحت کو ملحوظِ خاطر میں نہ لاتے ہوئے دن رات مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت کے حصول کے لیے کوشاں رہے کیوں قائد اعظم محمد علی جناح جانتے تھے کہ برصغیر پاک و ہند میں دو قومیں آباد ہیں دونوں کے رہن سہن، رسم ورواج، اور سب سے بڑ کر مذہب الگ ہے وہ کسی صورت بھی اکھٹی نہیں رہ سکتیں مسلمانوں کو ایک الگ مملکت کی ضرورت ہے اور ہمیشہ رہے گی جہاں پر وہ اپنے دین و اسلام کی مکمل پیروی کرتے ہوئے زندگی بسر کر سکیں اور مسلمانوں کو ان کے تمام تر حقوق ملنے چائیے جو کہ برصغیر میں رہتے ہوئے ممکن نہ تھا۔

Shares: