ایسا لگتا ہے کہ ملک میں نوٹوں کی گڈیوں سے وزارتوں اور عہدے باٹنے کا سلسلہ بھی شروع گیا ہے ۔ کیونکہ سیاست کے اپنے اصول ہیں ۔ بیڈ گورننس ، سیاسی نا تجربہ کاری اور روز روز کی تنقید سے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے سوچ لیا ہے کہ باقی ماندہ دو سالوں میں لوگوں کو نوازا جائے ، گلے دور کیے جائیں اور دوست بنایا جائے ۔ کیونکہ کہیں اگلا الیکشن اگر اپنے بل بوتے پر لڑنا پڑ گیا تو آسان کچھ نہیں مشکلات ہی مشکلات ہیں ۔

۔ جہاں نوازشریف صاحب ایک بار پھر خاموش ہوگئے ہیں۔ پر ان کی کمی شہباز شریف پوری کرنے کی پوری پوری کوشش کر رہے ہیں ۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ چھوٹا بھائی جو کچھ بھی کرتا ہے۔ بڑے بھائی کے کہنے پر ہی کرتا ہے۔ اب شہباز شریف نے اپنے روایتی انداز دیکھانا شروع کر دیے ہیں ۔ یعنی مصالحت کی بجائے جارحانہ انداز اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے سردھڑ کی بازی لگانی کی تیاری شروع کر دی ہے ۔ شہباز شریف نے چاروں صوبائی صدور اور عہدیداروں کو حکومت کے خلاف متحرک ہونے کی ہدایات کے ساتھ لیگی نمائندوں کو پارلیمنٹ اور دیگر اسمبلیوں میں حکومت کے اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی ہدایت کر دی ہے۔ اب ن لیگ لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور حکومت کی ناکام پالیسیوں کو ہدف تنقید بنائی گئ ۔ حکومت کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں پر احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کو بھی ہدف تنقید بنایا جائے گا ۔ جبکہ جو سب سے اہم چیزہے وہ یہ ہے کہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ پارٹی سطح پر عید کے بعد ورکرز کنونشن اور کارنر میٹنگز کا انعقاد کیا جائے۔ ساتھ ہی منتخب لیگی ارکان کو ہفتے میں کم از کم دو دن اپنے حلقوں میں موجود رہنے کی بھی سختی سے ہدایت کر دی ہے۔ آسان الفاظ میں اگلے الیکشن کی تیاری کا حکم دے دیا گیا ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی جاتی ہے کہ عمران حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ شہباز صاحب کو عدالت سے مبینہ منی لانڈرنگ کی وجہ سے آئندہ دو مہینوں کے دوران سزا دلوا کر رہے گئیں ۔ اس میں شہزاد اکبر پیش پیش ہیں ۔ جہاں قومی اسمبلی کے اجلاس میں خواجہ آصف اور ’’سافٹ وئیر اپ ڈیٹ‘‘والی بات کی ہیڈ لائنز بنیں تو جو دبے لفظوں میں نئے انتخابات کا مطالبہ ہوا وہ بھی اہم ہے ۔ ۔ اگلے انتخابات میں ابھی بڑا وقت ہے لیکن اس بار سیاسی جوڑ توڑ قبل از وقت شروع ہو گیا ہے۔ وہ لوگ جو مڈ ٹرم انتخابات کا مطالبہ کرتے تھے اب بروقت انتخابات کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ کچھ لوگ عمران خان کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کی بھی بات کر رہے ہیں۔

۔ کوئی ٹھوس خبر تو نہیں مگر چند اشارے ایسے ہیں جن کو دیکھ کر لگتا ہے کچھ نیا ہونے والا ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت سندھ میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے وہاں کے بااثر سیاسی خاندانوں سے معاملات طے کر رہی ہے۔ اور یہ تاثر دیا جا رہا ہےکہ سندھ میں ساری سیاسی قوتیں پیپلزپارٹی کے خلاف ایک دوسرے سے تعاون کریں گی ۔ اور یوں بھرپور پلاننگ کے ساتھ اگلی بار سندھ سے پیپلز پارٹی کا پتہ کاٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کچھ تو دعوی کر رہے کہ شاید پیپلز پارٹی کو ایم کیو ایم اور ق لیگ کی طرح مرکز یا صوبے میں حکومتی جماعت کا اتحادی بننا پڑے۔ پنجاب میں مسلم لیگ ق کے ساتھ حکومت سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر سکتی ہے۔ وزیر اعظم نے حال ہی میں مسلم لیگ ق کی لیڈر شپ سے ملاقات بھی کی ہے۔ اور آج تو وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت اجلاس میں چودھری مونس الہیٰ کو وفاقی وزیر بنا کر ان کی دیرینہ خواہش کو پورا کر دیا گیا ہے ۔ اب کہنے والے تو کہہ رہے ہیں اور اسکا کریڈیٹ بھی زرداری کو ہی دے رہے ہیں کہ حکومت کو ڈر پڑ گیا ہے کہ اگلی بار ق لیگ پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملا کر الیکشن لڑے گی تو سوچا یہ گیا کہ ق لیگ جو مانگتی ہے دے دو ۔ آخر الیکشن کا سوال ہے ۔

۔ ساتھ ہی تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی پنجاب سے مسلم لیگ ن کا ووٹ توڑنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں جبکہ میاں شہباز شریف اپنے ووٹ بینک کو بچانے اور اپنے الیکٹ ایبل محفوظ بنانے کے لیے تگ ودو میں ہیں۔ بلاول بھٹو کا امریکہ جانا بھی ہمارے سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے اور اسے آئندہ انتخابات میں امریکہ سے آشیرباد اور ڈیل قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں اس وقت اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کی دوڑ جاری ہے البتہ اس دوڑ میں پیپلزپارٹی کی دال گلتی تو نظر آتی ہے لیکن مسلم لیگ ن بارے کہا جا رہا ہے کہ شاید انکی قبولیت کا ابھی وقت نہیں آیا۔ حکومت نے بھی ابھی سے آئیندہ انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ حالیہ بجٹ میں انتخابی تیاریوں کی جھلک نظر آتی ہے تاہم اگلا بجٹ خالص انتخابی بجٹ ہو گا۔ اب دیکھیں آذاد کشمیر میں کیا ہوتا ہے تاہم سیاسی پنڈتوں کی پشین گوئیاں بتاتی ہیں کہ آزاد کشمیر میں بھی پہلی بار تحریک انصاف کی حکومت بننے جارہی ہے مگر سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حالیہ حکومت کے باعث وہاں مسلم لیگ ن کی پوزیشن مضبوط ہے اور آج کل مریم نواز بڑے بڑے جلسے کرنے میں مصروف ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے جلسوں کے مقابلے میں تحریک انصاف ابھی تک کشمیر میں کوئی بڑا جلسہ نہیں کر پائی۔ تحریک انصاف جوڑ توڑ کی سیاسی مینوفیکچرنگ میں مصروف ہے۔

۔ ہاں البتہ جو وفاقی وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈا پور نوٹوں کی تھدیاں بانٹتے پکڑ گئے ۔اس سے تحریک انصاف کی مشہوری میں کافی اضافہ ہوا ہے ۔ پر آج چیف الیکشن کمشنر آزاد کشمیر نے وفاقی وزیر علی امین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے کر اس مشہوری کو چار چاند لگا دیے ہیں ۔

۔ اس سیاسی کھیل میں عوامی مسائل کا نظر انداز ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اور مولانا فضل الرحمان کی جماعت بھی اسی جذباتی انداز میں تقریریں کرتے کرتے اصل سیاست جس کا مقصد عوامی فلاح و بہبود ہے اسے بھلا دیتے ہیں۔ ان دنوں بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں صرف اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں مصروف ہیں۔

۔ کوئی پسند کرے یا نہیں ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے نمودار ہونے کے چند ماہ بعد ہی ہوئے انتقال پر ملال نے عمران حکومت کو بے پناہ اعتماد بخشا ہے۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں حکومت کو گھر بھیجنے کے بجائے اب ایک دوسرے کو شرمندہ کررہی ہیں۔

۔ آج بھی اپوزیشن اپنے اپنے کیسز پر عدالت میں پیش ہوتی ہے لیکن کبھی حکومت کے ساتھ عام آدمی کے مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ عام آدمی اگر گیس، پانی بجلی کے بل جمع کرواتا ہے تو کھانے کے لیے پیسے نہیں بچتے۔ گھر کا کرایہ، بچوں کی تعلیم اور ادویات کے لیے ادھار کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

۔ کراچی سے خیبر تک اور گلگت سے گوادر تک کوئی شخص ایسا نہیں جو مہنگائی سے تنگ نہ ہو۔ آج سب ایک ہی آواز میں حکومت کو کوس رہے ہیں۔

۔ پاکستان اس وقت معاشی بحران اور سیاسی انتشار کا شکار ہے۔ نئے وفاقی بجٹ کے اثرات عوام کے لیے کرونا کی چوتھی لہر سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہے ہیں ہیں۔ دراصل آئی ایم ایف کی مرضی اور حکم نے ہمارے مستقبل کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بیروزگاری، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ جیسی اذیتوں کا حل نکالنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔

۔ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر بیانات جاری کرنا بہت آسان ہے۔ بازاروں میں جا کر حالات کا جائزہ لینا اور عوام کا سامنا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت مہںگائی تو ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے کم نہیں کر سکتی لیکن اسے قوت خرید بڑھانے سے تو کسی نے نہیں روکا۔ حکومت ماضی میں پھنسی رہے گی تو نہ مہنگائی رکے گی نہ قوت خرید بڑھے گی اس کے نتیجے میں صرف عام آدمی پسے گا، کیا اس تبدیلی کے لیے لوگوں نے بلے پر مہر لگائی تھی۔

Shares: